خداتعالیٰ اور حضورﷺ صحابہ کرامؓ اور ائمہ اسلام اور قرآن کریم محفوظ نہ رہے ہوں وہ مسیح ہو سکتا ہے؟ چنانچہ خداتعالیٰ کے متعلق یہ کہتا ہوا نہ شرم کرے کہ ’’خدا نے مجھ پر رجولیت کا اظہار فرمایا‘‘ اور حضورﷺ کے متعلق یہ بکواس کہ ’’جو کچھ حضورﷺ نے قرآن کے متعلق فرمایا ہے۔ اس سے بڑھ کر کہا جاسکتا ہے۔‘‘ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے حدیثیں مسلم وبخاری میں مروی ہیں۔ تو حضرت ابوہریرہؓ کے حق اور شان میں وہ گستاخی ہے کہ کوئی مسلمان ہرگز ہرگز نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہ سب کفریات انشاء اﷲ عنقریب اپنے اپنے محل پر ناظرین کے سامنے آجائیں گے۔
قبل ازیں کہ کتاب اور سنت واجماع امت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر ہونے اور قریب قیامت نازل ہوکر دجال کو قتل کرنے کا ثبوت ہم پیش کریں۔ لفظ توفی کا معنی لغوی اور محاوۂ قرآن اس باب میں کیا ہے۔ ناظرین! کو توجہ دلاتے ہیں۔ سب سے اوّل قابل غور یہ ہے کہ قرآن کو الحمد سے لے کر والناس تک باربار پڑھ جائیے۔ لفظ توفی اور حیوۃ میں تقابل کسی ایک جگہ میں بھی ہرگز نہ ملے گا۔ جیسا کہ موت کے لفظ کے مقابل لفظ حیوٰۃ قرآن میں آیا ہے۔ قرآن کریم نے لفظ حیوٰۃ کی ضد موت کو بیسیوں جگہ فرمایا ہے اور توفی کو ایک جگہ بھی نہیں کہا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ توفی کا معنی موت نہیں ہے۔ آیات ذیل پر غور کیجئے۔ ’’یحیی الارض بعد موتہا‘‘ اور ’’یحیی ویمیت‘‘ اور ’’کفاتا احیاء وامواتاً‘‘ اور ’’یحییکم ویمیتکم ھو امات واحیا‘‘ اور ’’لا یموت فیہا ولا یحیی‘‘ اور ’’یخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی‘‘ اور ’’ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیائ‘‘ اور ’’اموات غیر احیاء ومن یخرج الحی من المیت توکل علی الحی الذی لا یموت‘‘ اور نمبرود نے کہا ’’انا احی وامیت‘‘ اور ’’احیی الموتیٰ باذن اﷲ‘‘ اور’ ’فاحینا بہ الارض بعد موتہا‘‘ اور ’’علیٰ ان یحیی الموتی‘‘ اور ’’یحیی ویمیت وھو علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘ اور آیات کثیرہ ہیں۔ قرآن میں جس سے صاف ظاہر ہے کہ حیوۃ کی ضد موت ہے نہ توفی اور مقابلات توفی قرآن نے اور امور بیان کئے۔ باعتبار اس کے معنی کے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ’’کنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ بیان توفی کا مقابل ’’فیہم‘‘ کو لایا گیا ہے۔ آیت کریمہ ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والّتی لم تمت فی منامہا فیمسک انی