پکارتے ہیں۔ خواہ وہ زندہ ہو یا میت ہو اور خواہ وہ مستغاث مسلمان ہو یا کافر نصرانی ہو یا کوئی مشرک ہو تو شیطان اس مستغاث بہ کی صورت وشکل پر ظاہر ہوکر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتا ہے اور مستغیث اپنے ظن اور اعتقاد میں سمجھتا ہے کہ یہ وہی حضرت ہیں یا فرشتہ ان کی شکل پر ظاہر ہوا ہے۔ جن کو میں نے پکارا ہے۔ حالانکہ وہ شیطان تھا۔ اس کو گمراہ کرنے کے واسطے یہ اس کی چال تھی۔ جیسا زمانہ جاہلیت میں شیاطین بتوں میں گھس کر مشرکین سے ہم کلام ہواکرتے تھے۔ یہ سب مضامین ابن تیمیہ اور ابن کثیر کی کتابوں میں بعینہ موجود ہیں۔ ہم نے ان کی عربی عبارات کا اردو میں ٹھیٹھ ترجمہ کر دیا۔ (البدایہ والنہایہ از ابن کثیر ص۲۷)
اور ۷۹ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حارث بن سعید متنبی کذاب کو قتل کیا۔ یہ شخص ابو جلاس عیدری کا غلام تھا اور ایک روایت میں ہے کہ حاکم بن مروان کا غلام تھا۔ اصل اس کا مسکن جولا تھا اور دمشق میں سکونت پذیر تھا۔ نہایت عابد پرہیزگار تھا۔ پھر اس کے ساتھ شیطان نے اپنا داؤ کھیلا اور یہ اسلام سے نکل گیا اور اﷲ کی آیات کا منکر ہوا اور حزب اﷲ مخلصین سے جدا ہوکر شیطان کے تابعین سے ہوکر گمراہ ہوا۔ دین دنیا کا خسارہ اٹھا کر برباد اور خراب ہوا اور اس کا والد اپنے مسکن جولا میں تھا کہ حارث کو شیطان نے بہاکایا۔ عبدالرحمن بن حسان کہتے ہیں کہ یہ شخص اس درجہ کا عابد زاہد تھا۔ اگر سونے کا لباس پہن کر بیٹھتا تو بھی اس کے چہرے پر زہد اور عبادت کے آثار نمایاں ہوتے اور جب یہ شخص تسبیح تہلیل میں شروع ہوتا تو سامعین حیران رہ جاتے۔ اس نے اپنے والد کو جولا میں لکھا کہ آپ جلدی تشریف لائیں۔ مجھے عجیب وغریب اشیاء پیش آتی ہیں۔ کہیں یہ شیطان کا دھوکا نہ ہو اور اس کے والد نے اس کو جواب دیا کہ شیطان کا اثر افاک اثیم پر ہوتا ہے۔ تم جس کے مامور ہوئے ہو اس پر قایم رہو اور یہ شخص مسجد میں اہل مسجد سے علیحدہ علیحدہ ہر شخص کو ملتا اور اپنا دعویٰ نبوت ظاہر کرتا اور کہتا کہ اگر تم میری نبوت کی تصدیق نہ کرو۔ میرے بھید کو بھی ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کو بہت عجائبات دیکھاتا۔ اگر مسجد کے ستون کو ٹھوکر لگاتا تو اس سے بلند آواز سے سبحان اﷲ والحمد ﷲ کی آوازیں آتیں اور ابوخیمثہ کا قول ہے کہ حارث متنبی سرد موسم کے پھل اور میوے گرم موسم میں کھلاتا اور لوگوں کو کہتا کہ باہر میدان میں آؤ۔ تمہیں اپنی فوجوں کا معائنہ کراؤں اور لوگ جب باہر جاتے تو ہزارہا پیادہ اور سوار لوگوں کو نظر آتے اور یہ کہتا کہ یہ فرشتے میری امداد کے لئے رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس کی نبوت کا چرچا عام ہوگیا اور اس نے ایک دن قاسم بن تحمیرہ کو دعوت دی اور کہا کہ اگر تم مجھے نبی نہ مانو تو میرے راز کو ظاہر نہ کرنا اور میں