اﷲ کی طرف سے نبی ہوں۔ تو قاسم نے کہا تو اﷲ کا دشمن اور ملعون ہے اور ان دجالوں میں سے ہے جن کے متعلق رسول اﷲﷺ نے اطلاع دی ہے کہ میرے بعد جھوٹے مدعیان نبوت آئیں گے۔ پھر قاسم اس کے پاس سے اٹھ کر ابوا دریس قاضی دمشق کے پاس گیا اور اس کو حارث کے دعویٰ نبوت کی اطلاع دی۔ پھر قاضی ابوادریس اور کلحول اور عبداﷲ بن ابی زائدہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے پاس گئے اور حارث کا ماجرہ بیان کیا۔ عبدالملک بن مروان نے اس کے پکڑنے کا حکم دیا اور حارث چھپ کر بیت المقدس کی طرف چلا گیا اور خفیہ اپنی نبوت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا رہا اور خلیفہ عبدالملک نے نہایت اہتمام سے اس کی تلاش کا حکم دیا۔ جہاں تک کہ خود مقام نصیریہ میں آیا اور وہاں خلیفہ کو ایک شخص اہل نصیریہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کو حارث کے پاس آمدورفت تھی اور اس کو علم تھا کہ وہ بیت المقدس میں فلاں جگہ چھپا ہوا ہے۔ اس نے خلیفہ کو کہا کہ خاص ایک ترکوں کا فوجی دستہ میرے ہمراہ دیجئے تو خلیفہ نے اس کو فوجی ترکی سپاہی دے کر اپنے نائب کو جو قدس میں رہتا تھا۔ لکھا کہ اس شخص کی امداد تم پر فرض ہے اور جو کچھ یہ کہے تمہیں ویسا ہی کرنا ہوگا اور جب یہ شخص بیت المقدس میں پہنچا تو شاہی نائب کو کہا کہ موم بتیاں جس قدر دستیاب ہو سکیں جمع کر دیجئے اور ہر ایک فوجی کے پاس ایک موم بتی ہونی لازمی ہے اور جس وقت میں ان کے روشن کرنے کا اعلان کروں۔ فوراً بتیاں روشن کر دی جائیں۔ یہ کہہ کر یہ شخص نصیری اکیلا اس حویلی میں گیا۔ جہاں حارث چھپا ہوا تھا اور اس کے دربان کو کہا کہ میں نبی اﷲ سے ملاقات کرنی چاہتا ہوں اور مشرف زیارت ہونا چاہتا ہوں۔ دربان نے کہا صبح سے پہلے نبی اﷲ کے پاس جانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ پس اس شخص نے فوجی دستے کو چلاّ کر موم بتیوں کے روشن کرنے کا اعلان کیا۔ روشنی کی وجہ سے گویا رات دن ہوگیا اور نصیری نے حارث کو پکڑنے کا جب قصد کیا تو حارث زمین دوز غار میں چھپ گیا۔ نصیری نے اپنا ہاتھ ڈال کر حارث کا دامن پکڑ لیا اور فوجیوں کو کہا کہ لو یہ حارث ہے۔ پکڑو۔ پکڑ کر اس کے پاؤں میں لوہے کے زنجیر اور گردن میں لوہے کا طوق ڈال دیا گیا۔ یہ واقعہ کئی دفعہ پیش آیا۔ پاؤں سے آہنی بیڑیاں اور گردن سے طوق ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پڑتے تھے اور حارث کہتا تھا یہ میرا معجزہ ہے۔ جب خلیفہ عبدالملک کے پاس لایا گیا تو اس نے اس کو علماء کے حوالے کر دیا کہ یہ شخص شیطان کے بہکانے سے مدعی نبوت ہے۔ اس کو توبہ کی تلقین اور وعظ نصیحت کی جائے۔ علماء نے بہتیرا سمجھایا لیکن بے سود۔ آخر خلیفہ کے سامنے لایا گیا اور خلیفہ نے جلاّد کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ جلاّد نے جب نیزہ مارا تو نیزہ دوہرا اور ٹیڑھا ہوکر بیکار