چاہئیں نہ حاکم۔ یہ اعتقاد اور یقین ہر مسلمان پر عین فرض تھا۔ چنانچہ اس فرض کی ادائیگی میں ایک مقدس جماعت علماء نے اپنی عمریں بسر کیں اور انگریز کے بڑے بڑے مظالم، قید وبند کے مصائب کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اور انگریز کی قہر مانی قوت اور سطوت ان کو رضاء الٰہی اور حق گوئی سے ایک لمحہ تک اس مقدس فرض سے غافل نہ کر سکی۔ میری مراد اس جماعت سے حضرات علماء دیوبند ہیں۔ رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین وشکر اﷲ!
۱۳۲۷ھ میں بعد فراغت کتب درسیہ خاکسار راقم الحروف نے شیخ الہند نہیں شیخ العالم حضرت مولانا محمود الحسن نور اﷲ مرقدہ کی خدمت اقدس میں درخواست بیعت کی تو فرمایا میں جب مدرسہ کے بعد گھر جاؤں تو گھر آجانا، حسب الحکم جب بندہ حاضر ہوا تو فرمایا بانی مدرسہ حضرت قاسم العلومؒ کی بنائے مدرسہ سے غرض یہ تھی کہ ایک جماعت ایسی تیاری کی جائے جو اطراف اکناف عالم میں تطہیر ہند از کفر کی سعی کرے۔ ورنہ قیامت میں ہم سب سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تنہائی میں گھر بیٹھ کر اس خیال کو دل میں لانا بھی لوگ موت تصور کرتے تھے۔ اسی زمانے میں مرزاقادیانی جہاد کا رد، قرآن کی تردید، کفر کی حمایت، انگریز کی خوشنودی حاصل کرتے کرتے مسیح موعود اور مہدی موعود، نبی، رسول بن گئے یا للعجب دعویٰ یہ ہے کہ میں محمد رسول اﷲ سے قرآن کے معارف بڑھ کر سمجھ سکتا ہوں اور جہاد کے رد میں یہ آیت قرآنی پیش کرتے ہیں۔ ’’ولتکن منکم امۃ یدعون الیٰ الخیر‘‘ سچ فرمایا: ’’اذا لم تستحیی فافعل ماشئت‘‘ یعنی بے حیا باش وآنچہ خواہی بگو۔ مرزاقادیانی کی کتاب (کرامت الصادقین ص۱۸، خزائن ج۷ ص۶۱) پر غلیظ اور گندہ کفر موجود ہے۔ ’’پس یہ خیال کہ گویا جو کچھ آنحضرتﷺ نے قرآن کریم کے بارہ میں بیان فرمایا ہے۔ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ یہ بدیہی البطلان ہے۔‘‘
نعوذ باﷲ من ذالک الکفر! آیت مذکورہ کو جہاد کے خلاف اس کے رد میں پیش کرنا ناقرآن سے بیگانگی جہالت غبادت اور دغابازی کا کھلا ثبوت ہے۔ دعوت الیٰ الخیر کے اقسام میں سے ایک قسم تلوار بھی ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے کہ جنگ احزاب کے بعد جب افواج کفار واپس ہوئیں تو حضورﷺ نے فرمایا آج کے بعد ہم ہمیشہ ان پر حملہ کریں گے۔ کفار ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جزیرۃ العرب کے بعد تمام روئے زمین پر حاملین قرآن اور فدایان رسولﷺ نے دعوۃ الیٰ الخیر کا یہ فرض جہاد بالسیف سے ادا کیا۔ مرزاقادیانی کے قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ، حضرت فاروق اعظمؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اسد اﷲ اور ان کی تمام