اور اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھتے جائیں گے۔ ویسے مسئلہ جہاد کے معتقدکم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
ایک جگہ اور کہتے ہیں کہ: ’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک (ہندوستان) پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاتے ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خبر خواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جانثار۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
مرزاغلام احمد قادیانی کی اس تحریک اور ان کی اس جماعت نے انگریزی حکومت کے لئے بہترین جاسوس اور بڑے سچے دوست اور جانثار فراہم کئے۔ اس گروہ کے بعض چیدہ اشخاص نے ہند اور بیرون ہند میں انگریزی حکومت کی بیش قیمت خدمات انجام دیں اور اس سلسلہ میں جانی قربانی تک سے دریغ نہیں کیا۔ جیسے عبداللطیف قادیانی جو افغانستان میں مذہب قادیانی کی تبلیغ اور جہاد کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کو حکومت افغانستان نے قتل کیا۔ کیونکہ ان کی دعوت سے اس بات کا خطرہ تھا کہ افغان قوم کا وہ جذبہ جہاد اور حوصلہ جنگ فنا ہو جائے۔ جس کے لئے وہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایسی ہی ملا عبدالحلیم قادیانی اور ملا نور علی قادیانی اسی انگریزی حکومت کے لئے افغانستان میں فنا کے گھاٹ اترے۔ کیونکہ ان کے پاس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ دونوں برطانوی حکومت کے ایجنٹ ہیں اور حکومت افغانستان کے خلاف سازش میں مشغول ہیں۔ جیسا کہ افغانستان کے وزیر داخلہ کے ۱۹۲۵ء کے ایک بیان سے معلوم ہوتا ہے اور قادیانیوں کے سرکاری اخبار ’’الفضل‘‘ نے اپنی ۳؍مارچ ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں اس بیان کو نقل کیا اور اس قربانی پر بڑے فخریہ انداز میں تبصرہ کیا۔