علیٰ ہذا یہ قادیانی جماعت اپنے دور آغاز سے اب تک برابر تمام قوم پرور ووطن دوست تحریکات سے کنارہ کش رہی۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں نہ مرزاغلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس نے کوئی حصہ لیا نہ ان کے بعد، اور صرف یہی نہیں بلکہ انگریزوں کی چودھراہٹ میں پوری قزاقوں کی ٹولی (مستعمرین) کے ہاتھوں عالم اسلام پر جو مصائب ٹوٹ رہے تھے وہ ان کے لئے موجب غم نہیں باعث مسرت تھے۔ انہیں کبھی عام زندگی سے اسلامی مسائل سے یا ان اسلامی تحریکات سے جو اسلامی حمیت یا سیاسی شعور کا نتیجہ تھیں۔ کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ان کا کام ہمیشہ مذہبی مباحثہ اور موشگافیاں تھیں اور ان کی دلچسپیوں کا دائرہ صرف وفات مسیح، حیات مسیح، نزول مسیح اور نبوت مرزا غلام احمد پر مباحثوں اور مناظروں تک محدود رہا۔
مرزاقادیانی کا خاندان انگریزی حکومت سے جو پنجاب میں نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ شروع سے فرمانبردارانہ ومخلصانہ تعلق رکھتا تھا۔ اس خاندان کے متعدد افراد نے اس نئی حکومت کی ترقی اور اس کے استحکام میں جاں بازی اور جانثاری سے کام لیا تھا اور بعض نازک موقعوں پر اس کی مدد کی تھی۔
مرزاقادیانی کتاب البریہ کے شروع میں ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزامرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں وفادار وخیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گرائفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانۂ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودیٔ حکام ان کو ملی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں۔ مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ گئی ہیں۔ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ میرے دادا صاحب کی وفات کے بعد پر میرا بڑا بھائی مرزاغلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۵۴، خزائن ج۱۳ ص۱۷۶،۱۷۷)