اس نے اپنا پارٹ بڑی خوبی سے ادا کیا اور انگریز نے بھی اس تحریک کی سرپرستی میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس کی حفاظت میں کی اور ہر طرح کی سہولتیں اس کام میں بہم پہنچائیں۔ مرزاقادیانی نے بھی گورنمنٹ کے ان احسانات کو فراموش نہیں کیا اور ہمیں وہ اس بات کے معترف رہے کہ ان کا نمود برطانیہ عظمیٰ کا رہین منت ہے۔ چنانچہ اپنی ایک تحریر میں خود کو حکومت برطانیہ کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ اپنی اس درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء میں پیش کی تھی۔ لکھتے ہیں: ’’یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار، جانثار خاندان ثابت کر چکی اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کا خیرخواہ اور خدمت گزار ہے۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم واحتیاط اور تحقیق وتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
اور ایک جگہ اپنی وفاداریوں اور خدمت گزاریوں کو گناتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریز کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھا کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو تقریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں۔ اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں۔ تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیر دوں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال ’’جہاد‘‘ وغیرہ کو دور کر دوں۔ جو ان کی دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)