مولانا یحییٰ علیؒ نے چار سال کے بعد جزائر انڈمان کے پورٹ بلیر میں وفات پائی۔ مولوی محمد جعفر تھانیسریؒ ۱۸سال قید بامشقت کے بعد رہا ہوئے۔ مولانا احمد اﷲ صاحبؒ رہا ہو کر ہندوستان آئے۔ ادھر کچھ عرصہ کے بعد سوڈان میں شیخ محمد احمد سوڈانی نے جہاد اور مہدویت کا نعرہ بلند کیا۔ جس سے سوڈان میں برطانیہ کا اقتدار تزلزل میں آگیا۔ اس کو معلوم تھا کہ یہ چنگاری اگر بھڑک اٹھی تو پھر قابو میں نہیں آئے گی اور پھر سید جمال الدین افغانیؒ کی تحریک اتحاد اسلامی کو اس اس نے پھیلتے اور مسلمانوں میں مقبول ہوتے دیکھا۔ انگریزی حکومت نے ان سب خطرات کو محسوس کیا۔ اس نے مسلمانوں کے مزاج وطبیعت کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ ان کا مزاج دینی مزاج ہے۔ دین ہی انہیں گرماتا ہے اور دین ہی انہیں ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر قابو پانے کی واحد شکل یہ ہے کہ ان کے عقائد پر اور ان کے دینی میلان اور نفسیات پر قابو پایا جائے۔ مسلمانوں کے مزاج میں درخور حاصل کرنے کے لئے دین کے سوا کوئی ذریعہ نہیں۔
اس مقصد کے لئے برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں ہی میں سے کسی شخص کو ایک بہت اونچے دینی منصب کے نام سے ابھارا جائے کہ مسلمان عقیدت کے ساتھ اس کے گرد جمع ہو جائیں اور وہ انہیں حکومت کی وفاداری اور خیرخواہی کا ایسا سبق پڑھائے کہ پھر انگریزوں کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہ حربہ تھا جو برطانوی حکومت نے اختیار کیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا مزاج بدلنے کے لئے کوئی حربہ اس سے زیادہ کارگر نہیں ہوسکتا تھا۔
مرزاغلام احمد قادیانی جو ذہنی انتشار کے مریض تھے اور بڑی شدت سے اپنے دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ ایک نئے دین کے بانی بنیں۔ ان کے کچھ متبعین اور موافقین ہوں اور تاریخ میں ان کا ویسا ہی نام اور مقام ہو۔ جیسا جناب رسول اﷲﷺ کا ہے۔ انگریز کو اس کام کے لئے موزؤں شخص نظر آئے اور گویا انہیں ان کی شخصیت میں ایک ایجنٹ مل گیا جو ان کے اغراض کے لئے مسلمانوں میں کام کرنے، چنانچہ انہوں نے بڑی تیزی سے کام شروع کیا۔ پہلے منصب تجدید کا دعویٰ کیا۔ پھر ترقی کر کے امام مہدی بن گئے۔ کچھ دن اور گزرے تو مسیح موعود ہونے کی شہادت دی اور آخر کار نبوت کا تخت بچھا دیا اور انگریز نے جو چاہا تھا وہ پورا ہوگیا۔