کہتے ہیں کہ میں جب سید صاحبؒ کے مشہور اور جلیل القدر خلیفہ مولانا کرامت علی جونپوریؒ سے بیعت ہوا تو انہوں نے بیعت کے دوران مجھ سے یہ وعدہ بھی لیا کہ میں انگریزی افواج سے جنگ بھی کروں گا۔
ہندوستان میں نوخیز انگریزی اقتدار کے اس جماعت کے مجاہدین سے خوف وخطرہ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ۲؍مئی ۱۸۶۴ء کو انبالہ عدالت میں انگریز جج ایڈورڈس نے مولانا یحییٰ علی عظیم آبادیؒ، مولانا احمد اﷲ عظیم آبادیؒ، مولوی محمد جعفر تھانیسریؒ اور مولانا عبدالرحیم صادق پوریؒ کو حکومت انگریزی کے خلاف سازش اور جدوجہد کی بناء پر پھانسی دئیے جانے کا حکم سنایا۔ لیکن یہ حکم سن کر ان کے چہرے پر ایسی مسرت ظاہر ہوئی کہ مجمع دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جب ایک انگریز افسر نے اس کی وجہ دریافت کی اور کہا کہ میں نے آج تک ایسا منظر نہیں دیکھا کہ پھانسی کا حکم سنایا جائے اور پھانسی پانے والے ایسے خوش اور مطمئن ہوں۔
اس پر مولوی محمد جعفر صاحبؒ نے جواب دیا کہ ہمیں اس کی خوشی کیوں نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں شہادت کی نعمت نصیب فرمائی۔ تم بے چاروں کو اس کا مزا کیا معلوم؟ دوسرے دونوں ملزموں نے بھی اسی مسرت کا اظہار کیا۔ پھانسی گھر میں بھی ان چاروں ملزموں کے مسرت وبشاشت کا یہی حال تھا۔
انگریز ان قیدیوں کے سرور ونشاط کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے اور ان سے پوچھتے کہ تم موت کے دروازہ پر ہو اور کچھ دن میں تم کو پھانسی ہونے والی ہے۔ لیکن تمہارے اوپر اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ وہ جواب دیتے کہ اس شہادت کی وجہ سے جس کے برابر کوئی نعمت وسعادت نہیں۔ یہ حضرات کچھ عرصہ پھانسی گھر میں رہے اور انگریز حکام کے لئے یہ مسئلہ ایک معمہ بن گیا۔ بالآخر ایک دن انبالہ میں حاکم ضلع (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) جیل میں آیا اور اس نے ان تینوں کو خطاب کر کے کہا: ’’اے باغیو! چونکہ تم پھانسی کے خواہش مند ہو اور اس کو راہ خدا میں شہادت سمجھتے ہو اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم اپنی دلی مراد کو پہنچو اور خوشی سے ہمکنار ہو اس لئے ہم پھانسی کا حکم تبدیل کر کے تم کو جزائر انڈمان میں عمر قید (حبس دوام بعبور دریائے شور) کی سزا دیتے ہیں۔‘‘