کے بطن سے وجود میں آئی ہے۔ صورت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے ربع اوّل میں ہندوستان کے مشہور ومعروف مجاہد حضرت سید احمد شہیدؒ (۱۲۴۶ھ، ۱۸۳۰ئ) نے جو جہاد کی تحریک چلائی۔ اس سے مسلمانوں میں جہاد اور قربانی کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کے سینوں میں اسلامی شجاعت اور حوصلہ مندی موجزن ہونے لگی اور وہ ہزاروں کی تعداد میں سر ہتھیلیوں پر لئے ہوئے اس تحریک کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے۔ جس کی سرگرمیاں برطانوی حکومت کے لئے پریشانی اور تشویش کا باعث تھیں۔
معتبر تاریخی روایات اور معاصر باخبر شخصیتوں کی شہادت ہے کہ سید احمد شہیدؒ کے ہاتھ پر بیعت وتوبہ کرنے والوں کی تعداد ۳۰لاکھ تھی اور ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ۴۰ہزار تک پہنچتی ہے۔ یہ بھی ایک تاریخ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے قائم ہونے کے خطرہ کا سب سے پہلے احساس (سلطان ٹیپو شہید ۱۲۱۳ھ، ۱۷۹۹ء کے بعد) انہیں کو اور ان کی جماعت کو ہو۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ سے (جس کو غدر سے تعبیر کیا جاتا ہے) بہت پہلے ان کو اس خطرہ کا مقابلہ کرنے اور ملک کو اس سے بچانے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ انہوں نے اس وقت کے مہاراجہ گوالیار دولت راؤ سندھیا اور ان کے وزیر ہندو راؤ کو جو خط لکھا اس میں صاف طور پر تحریر فرمایا: ’’یہ بیگانگان، بعید الوطن، وتاجران متاع فروش‘‘ ہمارے ملک پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ آئیے ہم آپ مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ملک کو اس خطرہ سے محفوظ کریں۔ پھر بعد میں دیکھا جائے گا کہ کون سی ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے اور کس کو کیا اختیار دیا جائے۔ (سیرت سید احمد شہیدؒ)
انگریزی اقتدار کا مقابلہ کرنے میں بھی بہت بڑا ہاتھ ان کی جماعت کے مجاہدین کا تھا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سرولیم ہنٹر کی کتاب Our Indian Musalmans)
واقفین جانتے ہیں کہ اس بیعت سے عقیدہ کی تصحیح، توحید خالص، اتباع سنت عمل بالشریعت اور تزکیۂ نفس کے ساتھ جہاد فی سبیل اﷲ کا جذبہ اور عزم بھی واضح اور طاقت ور طریقہ پر پیدا ہوتا تھا۔
اس کی ایک مثال اور ثبوت یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے افواج کے کمانڈر جرنل بخت خاں جن کے سپرد خاص طور پر انگریزی افواج سے جنگ اور مقابلہ کی ذمہ داری تھی۔