انہوں نے یہ بصیرت افروز اور عمیق نکتہ لکھا ہے کہ ختم نبوت اس امت کا طرۂ امتیاز اور اس کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس امت کو یہ عظیم الشان نعمت عطاء فرمائی ہے کہ ختم نبوت کا مختتم اعلان کر دیا۔ گویا انسانوں کو یہ بتایا کہ اب تمہیں باربار وحی کے انتظار میں آسمان کی طرف دیکھنا نہیں ہے۔ اب زمین کی طرف دیکھو۔ اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں زمین کو (جس میں تم خلیفتہ اﷲ فی الارض) بنائے گئے ہو۔ آباد کرنے اور اپنی صلاحیتوں سے انسانوں کی قسمت بدلنے، سہولت بہم پہنچانے اور ان کے لئے وہ ماحول مہیا کرنے میں صرف کرو۔ جو ان کو نجات آخروی اور سعادت دنیوی کے حصول میں معاون ہو۔ اب تم اپنی توانائی اس میں ضائع نہ کرو کہ ہر تھوڑے وقفہ کے بعد آسمان کی طرف دیکھا کرو کہ کوئی نیا نبی تو نہیں آرہا ہے۔ کوئی نیا الہام تو نہیں ہورہا ہے؟ آسمان سے براہ راست کوئی نئی رہنمائی ہونے والی ہے؟ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ختم نبوت ایک ایسی نعمت ہے جس نے اس امت کو انتشار، ذہنی کشمکش اور جعل سازوں کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچا لیا۔
(علامہ اقبال کے مدراس کے لیکچرز Reconstruction of Religious Thought in Islam)
راقم نے اسی روشنی میں یہودیت اور مسیحیت کی تاریخ براہ راست پڑھنی شروع کی تو اس نے دیکھا کہ یہودی اور مسیحی علماء سرپکڑ کر (اور اس میں مبالغہ یا غلط بیانی نہیں) رو رہے ہیں اور اس پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ عجیب مصیبت ہے روز ایک نیا مدعی نبوت پیدا ہوتا ہے۔ اس کو صادق وکاذب ثابت کرنے کے لئے کوئی پیمانہ چاہئے اور وہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جو سب کی سمجھ میں آئے۔ ہماری طاقت اور ذہانت اسی میں صرف ہورہی ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ فلاں جعلی مدعی نبوت ہے۔ فلاں دجال وکذاب ہے۔ صدیوں تک یہودی اور مسیحی دنیا اس آزمائش میں مبتلا رہی ہے۔
یہاں معتبر یہودی وعیسائی مآخذ کے صرف دو اقتباس پیش کئے جاتے ہیں۔ امریکی برطانی جیوش ہسٹاریکل سوسائٹی کا ایک فاضل رکن البرٹ ایم سائمسن انسائیکلو پیڈیا مذاہب واخلاق میں لکھتا ہے: ’’یہودی حکومت کی آزادی سلب ہو جانے کے بعد پچھلی چند نسلوں تک بہت سے خود ساختہ مسیحاؤں کا ذکر یہود کی تاریخ میں ملتا ہے۔ جلاوطنی کے تاریک ترین زمانوں میں امید اور خوشخبری کے یہ پیغام بر، خود ساختہ قائدین کی حیثیت سے یہود کو ان کے وطن (جہاں سے