۶… یہ کہ اس پر دس ہزار سے زائد آیات وحی کی گئی ہیں۔
۷… یہ کہ جو اسے جھوٹا قرار دے گا وہ کافر ہے۔
۸… یہ کہ قرآن کریم نیز محمدﷺ اور پہلے زمانہ کے تمام انبیاء نے اس کی نبوت کی شہادت دی ہے۔ بلکہ اس کی بعثت کے زمانہ اور جگہ کی تعیین بھی کی ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
یہ تھا اس کا عقیدہ جس کا اس نے اعلان کیا اور اپنی کتابوں جیسے ’’براہین احمدیہ‘‘ اور ’’تبلیغ رسالت‘‘ میں اس کی دعوت پیش کی۔ ان کتابوں کو ہم نے پڑھا اور ان میں جو کفر بکا گیا ہے اور اﷲ ورسول پر جو افتراء پردازی کی گئی ہے۔ اس کا بھی جائزہ لیا۔ یہی اس کے ماننے والوں کا بھی عقیدہ ہے۔ جس کی وہ ہر وقت اور ہر جگہ اشاعت کرتے پھرتے ہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی دراصل ایک نئے دین کی بنیاد رکھنے کا خواہش مند تھا۔ جس کی تبلیغ کی جائے اور بہت سے لوگ اس میں اس کی پیروی کریں۔ اس پر ایمان لائیں۔ تبلیغ کے کام میں اس کی پشت پناہی کریں۔ وہ انگریزوں کا بھی اطاعت گزار رہا۔ جن کی ان دنوں ہندوستان پر حکومت تھی۔ اسی لئے انگریزی حکومت کی خدمت گزاری کے لئے اس نے اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے: ’’میں اپنے ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا ہوں۔ اپنی زبان اور قلم سے اس کام میں مشغول ہوں کہ تامسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو ان کی دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
نیز وہ کہتا ہے: ’’اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
وہ یہ بھی کہتا ہے: ’’انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے حرام ہونے کے بارے میں میں نے بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں۔ جنہوں نے ہمارے اوپر احسان کیا اور جن کی پورے خلوص سے اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۴ ملخص)