(اخبار الفضل قادیان ج۲۰، مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۲ئ) میں رقم طراز ہے: ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ (بنی اسرائیل:۱)‘‘ کی آیت کریمہ میں مسجد اقصیٰ سے مراد قادیان کی مسجد ہے۔
اور جب یہ بات ہے کہ قادیان بلد اﷲ الحرام کا ہم مرتبہ بلکہ کچھ سوا ہے تو لامحالہ اس کا سفر بھی حج کے برابر یا کچھ فائق تر ہوگا۔ چنانچہ میاں محمود احمد صاحب خطبۂ جمعہ میں فرماتے ہیں: ’’اسی لئے اﷲتعالیٰ نے ایک اور ظلی حج مقرر کیا تاکہ وہ قوم جس سے وہ اسلام کی ترقی کا کام لینا چاہتا ہے اور تاکہ وہ غریب یعنی ہندوستان کے مسلمان اس میں شامل ہوسکیں۔‘‘
(الفضل یکم؍دسمبر ۱۹۳۲ئ)
اور قادیانی جماعت کے لئے ایک اور بزرگ ایک قدم آگے بڑھا کر فرماتے ہیں کہ: ’’جیسے احمدیت کے بغیر پہلا یعنی حضرت مرزاصاحب کو چھوڑ کر جو اسلام باقی رہ جاتا ہے وہ خشک اسلام ہے۔ اسی طرح اس حج ظلی کو چھوڑ کر مکہ والا حج بھی خشک رہ جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں پر آج کل حج کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔‘‘ (اخبار پیغام صلح لاہور ج۲۱ نمبر۲۲)
ان باتوں سے اندازہ کیجئے کہ قادیانیت کس طرح ایک مستقل عالمی دین بننے کے لئے کوشاں اور امیدوار ہے۔ جس کا خود اپنا ایک نبی ہو۔ صحابہ اور خلفاء ہوں۔ مقامات مقدسہ ہوں اپنی مستقل تاریخ اور شخصیات ہوں اپنا مستقل ادب اور لٹریچر ہو اور اپنے متبعین کا رشتہ اسلام کے لافانی ورثہ سے اس کی تاریخ اور شخصیات سے اس کے اولین سرچشموں اور ماخذوں سے، اس کے مقدسات اور روحانی مراکز سے منقطع کر کے کسی طرح ان میں سے ہر ایک کے عوض میں ایک نئی چیز اپنے متبعین کے لئے فراہم کرتی ہے۔ مگر ان چیزوں کا بدل کوئی چیز کہاں بن سکتی ہے۔ معاذ اﷲ عن ذالک!
اور اسی طرح سے انسان نبی عربیﷺ کی محبت واطاعت کی سرشاری، آپؐ کے ذکر کی شیفتگی، آپؐ کی سیرۃ پاک کے مطالعہ اور آپؐ کے نقش قدم کے اتباع سے برگشتہ ہوکر نبی قادیانی کی محبت میں اور اس کی عظمت وعبقریت کے گن گانے میں، اس کی تاریخ کا مطالعہ کرنے میں اور اس کے نقش قدم پر چلنے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ انسان اسلام کی تابناک تاریخ ایمان وجوانمبردی کی تاریخ، شرافت انسانی کی تاریخ کو چھوڑ کر ایک ایسی تاریخ پر فریفتہ ہو جاتا ہے جو سراسر ذلت