ترقیات کی انتہاء نہ تھا۔ بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تجلی فرمائی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۷، خزائن ج۱۶ ص۲۶۶)
اور مزید یہ بھی کہتے ہیں: ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی۰ غسا القمران المشرقان اتنکر‘‘ اس کے (یعنی نبی کریم کے) لئے صرف چاند کے گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں (کے گرہن) کا۔ اب کیا انکار کرے گا۔
(اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
قادیانیت کی نظر میں مرزاقادیانی کے مدفن کا بھی وہی مرتبہ ہے جو جناب رسول اﷲﷺ کے مزار مبارک کا۔ ملاحظہ فرمائیے صیغۂ تربیت قادیان کی طرف سے قادیان جانے والوں کے لئے ہدایت کا اقتباس!
’’اس اعتبار سے مدینہ منورہ کے گنبد خضراء کے انوار کا پورا پورا پرتو اس گنبد بیضاء پر پڑ رہا ہے۔ آپ گویا ان برکات سے حصہ لے سکتے ہیں جو رسول کریمﷺ کے مرقد منور سے مخصوص ہیں۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جو احمدیت کے حج اکبر میں اس تمتع سے محروم رہے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۱۰ نمبر۴۸، مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۲۲ئ)
علیٰ ہذا قادیانی یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا قادیان تین مقدس ومتبرک مقامات میں سے ایک ہے۔ مرزامحمود احمد خلیفۂ قادیان تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’خدائے تعالیٰ نے ان تینوں مقامات (مکہ، مدینہ اور قادیان) کو مقدس کیا اور تینوں مقامات کو اپنی تجلیات کے اظہار کے لئے چنا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳؍ستمبر ۱۹۲۵ئ) پھر ایک قدم اور بڑھا کر قادیانیت، بلد حرام اور مسجد اقصیٰ کے متعلق قرآنی آیت کو قادیان پر چسپاںکرتی ہے۔ مرزاغلام احمدقادیانی کا ارشاد ہے کہ: ’’ومن دخلہ کان آمنا‘‘ ان کی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا گیا ہے۔
(ملخص از حاشیہ در حاشیہ براہین احمدیہ ص۵۵۸، خزائن ج۱ ص۶۶۶،۶۶۷)
(درثمین ص۵۲) پر ارشاد ہے ؎
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے