کے اثرات سے بالکل پاک نہ ہو۔ لیاقت علی خان مرحوم اپنے آخری ایام میں اس خطرہ کو محسوس کرنے لگے تھے اور مذکورہ صورتحال سے غیرمطمئن ہوگئے تھے اور جیسا کہ واقفین کا کہنا ہے کہ ان کا احساس اور شعور بھی ان کے ناگہانی قتل کے اسباب میں سے ہے۔
الغرض ان باتوں نے پاکستان کی تمام اسلامی جماعتوں اور مختلف دینی پارٹیوں اور شخصیتوں کو متحدہ طور پر اس مسئلہ کی فکر کرنے پر آمادہ کیا اور ان سب کے ۲۳نمائندوں کا ایک اجتماع جنوری ۱۹۵۳ء میں کراچی میں منعقد ہوا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو ایک غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ جس کو اقلیتی حقوق حاصل ہوں اور تناسب آبادی کے لحاظ سے پاکستانی پارلیمنٹ کی نشستوں میں اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ مقرر ہو،تا کہ حکومت کے ذرائع اور نظم ونسق کی مشنری پر یہ لوگ ناحق طور سے قبضہ نہ جما سکیں اور مسلمانوں کو خود ان کی اس ریاست میں تنگ نہ کر سکیں۔ جس کی تاسیس کے لئے انہوں نے اپنے جسم وجان کی قربانی دی۔
لیکن پاکستان کی حکومت نے اس منصفانہ اور بلند بانگ مطالبہ کی طرف سے اپنے کان بند کر لئے اور ذرہ برابر توجہ نہ کی۔ حکومت کی اس روش کو دیکھ کر ان قائدین نے ایک عمومی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے ذریعہ سے حکومت کے اس رویہ کے خلاف عمومی ناراضگی کا اظہار ہو اور حکومت کو ماننا پڑے کہ یہ مطالبہ چند خواص کے سرکا سودا نہیں۔ بلکہ عوام کے دل کی آرزو ہے اور واقعہ یہ ہے کہ تحریک اس قدر عوامی جوش وخروش سے لبریز اور لرزہ خیز تھی کہ اس کی مثال اس ملک کی پچھلی تاریخ میں دور تک ملنی مشکل ہے۔
اس تحریک کو جسے حکومت نے بغاوت کا نام دیا۔ کچل ڈالنے کے لئے حکومت نے اپنے تمام وسائل استعمال کر ڈالے۔ حالانکہ وہ بغاوت نہیں تھی وہ ایک ایسی قوم کی طرف سے جائز قسم کا مطالبہ تھا جو نہایت ٹھنڈا مزاج رکھتی اور اپنی حکومت کی وفادار تھی اور جس نے اس کی خدمت اور اس کا دفاع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ حکومت نے فوج طلب کی جس نے ’’بغاوت‘‘ کو کچل ڈالنے کے لئے اندھا دھند فائرنگ کی۔ ہزاروں علماء اور دین دار لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور پنجاب کو جو اس تحریک کا مرکز تھا فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس آزمائش کا سب سے بڑا حصہ لاہور شہر کے حصہ میں آیا۔ جس پر دو ماہ سے زائد عرصہ تک مارشل لاء نافذ رہا اور بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور بذریعہ فائرنگ لوگوں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت نے تحریک کے