فلسطین کی مملکت اسرائیل سے تشبیہ دی جائے کہ دونوں ہی مسلمانوں کے سینہ پر سوار ہیں اور ان کی گھات میں ہیں۔
یہ تھے وہ اسباب جنہوں نے پاکستان کے مسلم رہنماؤں کو ایک گہرے فکر میں ڈبودیا اور انہوں نے غور کیا تو اس صورتحال میں پاکستان کے سر پر لٹکتی ہوئی ایک ننگی تلوار دیکھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ملک کے قلب میں برطانیہ کی ایجنسی قائم ہے۔ قصر اسلامی کو اندر ہی اندر ایک گھن لگ رہا ہے اور ہدایت ربانی ’’یا یہا الذین آمنوا لا تتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالاً ودوا ماعنتم قد بدت البغضاء من افواہہم وما تخفی صدورہم اکبر (آل عمران:۱۱۸)‘‘ {اے ایمان والو مت بناؤ بھیدی اپنے غیر میں سے۔ وہ کمی نہیں کرتے ہیں تمہاری خرابی میں۔ ان کو خوشی ہے تم جس قدر تکلیف پاؤ۔ نکل پڑتی ہے دشمنی ان کی زبان سے اور جو چھپا ہے ان کے جی میں سو اس سے بھی سوا ہے۔} کے بالکل خلاف ہورہا ہے۔
تب انہوں نے کہا کہ اس مشکل کا حل صرف یہ ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کر دیا جائے اور پاکستانی حکومت ان کے ساتھ ایک غیرمسلم اقلیت کی طرح معاملہ کرے۔ یہ بعینہ وہی تجویز تھی جو سب سے پہلے ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے پیش کی تھی اور اپنے خطبات ومقالات میں بہت شدت وقوت کے ساتھ اسی کی دعوت دیتے رہے تھے۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ: ’’قادیانیت اسلام سے اس سے کہیں زیادہ مغائر ہے۔ جتنے کہ سکھ ہندوؤں سے۔ لیکن انگریزی حکومت نے سکھوں کو غیر ہندو اقلیت قرار دیا۔ حالانکہ ان دونوں میں بہت سے معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات قائم ہیں اور آپس میں بیاہ شادی تک کرتے ہیں۔ جب کہ قادیانیت مسلمانوں سے مناکحت کرنے اور انہیں داماد بنانے کو قادیانیوں کے لئے حرام ٹھہراتی ہے اور ان کے بانی نے مسلمانوں سے ہر قسم کے تعلقات کو یہ کہہ کر ناجائز قرار دے دیا ہے کہ مسلمانوں کی مثال خراب شدہ دودھ کی ہے۔ جب کہ ہم تازہ دودھ کی مانند ہیں۔‘‘
اپنے مسئلہ کے علاوہ اپنے ملک کی بہبودی کے نقطۂ نظر سے بھی پاکستان کے مسلمانوں نے قادیانیت پر غور کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمارا ملک اپنی سیاست میں، اپنے تصرفات میں اور اپنے معاملات، اپنے سیاسی مصالح اور اسلامی تقاضوں کے مطابق انجام دینے میں اس وقت تک ہرگز آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی بیرونی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں