انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت ص۳۵)
اور یہی خلیفہ صاحب ایک عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہتے ہیں: ’’ہم چونکہ مرزاصاحب کو نبی مانتے ہیں اور غیراحمدی آپ کو نبی نہیں مانتے۔ اس لئے قران کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔ غیراحمدی کافر ہیں۔‘‘
(بیان مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۶،۲۹؍جون ۱۹۲۲ئ) ایک تقریر میں اپنے اور مسلمانوں کے اختلافات کے سلسلے میں مرزاقادیانی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ: ’’اﷲتعالیٰ کی ذات اور رسول کریمﷺ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
اور حد یہ ہے کہ پاکستان کے قائداعظم مسٹر محمد علی جناح کا انتقال ہوا تو اپنے عقیدہ کی بناء پر سرظفر اﷲ خان نے آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
سرظفر اﷲ خان نے پورے عزم اور دوراندیشی کے ساتھ اپنے اثر واقتدار سے فائدہ اٹھا کر وزارت خارجہ اور سفارت کی تمام اسامیوں کو قادیانیوں سے پاٹ دیا۔ علی ہذا دوسرے سرکاری محکموں میں بھی ان کو گھسایا اور مسلم ملازمین کی گردنوں پر ان قادیانی افسروں کو مسلط کر دیا۔ جو جس طرح جی میں آتا ہے ان پر حکم چلاتے ہیں۔ عہدوں کے ناجائز دباؤ سے ان میں قادیانیت پھیلاتے ہیں اور جو نہ مانے وہ طرح طرح کی زیادتیوں اور برخاستگی کا نشانہ بنتا ہے۔
دوسری اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ قادیانی بہت بڑی تعداد میں پاکستانی فوج میں گھس گئے۔ فوج، پولیس اور ہوائی سروس کے بڑے بڑے عہدوں پر چھا گئے اور ان محکموں میں ایسی مضبوط اکثریت بنالی کہ اگر ان کی مصلحت کا تقاضہ ہو تو ایک کامیاب بغاوت کر سکتے ہیں اور جب چاہیں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔
مزید برآں انہوں نے پنجاب میں ربوہ(چناب نگر) کے نام سے ایک آزاد ریاست (حکومت درحکومت کے طور سے) قائم کی جو ایک خالص قادیانی نوآبادی ہے۔ جہاں قانوناً نہ سہی لیکن عملاً کوئی سرکاری نوکری کسی غیرقادیانی کو ہرگز نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشن کے عملہ تک میں کوئی غیرقادیانی نہیں رکھا جاتا۔ بیجانہ ہوگا اگر پاکستان کے اس ربوہ کی