گورداسپور (پنجاب) کا ایک قصبہ قادیان تھا۔ انگریز کے سایۂ عاطفت میں یہ شرانگیزیاں کر رہے تھے۔ لیکن یہ بات کبھی ان کے خواب وخیال میں بھی نہ آئی تھی کہ کسی وقت کوئی بڑی سیاسی قوت بھی ان کے قبضہ میں آجائے گی اور کوئی ایسی بنی بنائی مملکت ہاتھ آجائے گی۔ جس میں ان کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوگا۔ کیونکہ اوّلاً تو انہوں نے ملک کی سیاسی جدوجہد اور جنگ آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا اور دوسرے یہ کہ ان کی تعداد بہت تھوڑی اور مسلمانوں کی غیرمعمولی اکثریت سے دبی ہوئی تھی۔ لیکن ۱۹۴۷ء میں یکایک مملکت پاکستان کی داغ بیل پڑ گئی اور یہ چیز جس کا تصور بھی قادیانی اپنے حالات کے پیش نظر نہیں کر سکتے تھے۔ بغیر ایک قطرۂ خون گرائے ہوئے انہیں مل گئی۔ یعنی حکومت اور طاقت… یہ کیسے ہوا؟ اس کی تفصیل بڑی عجیب ہے۔
ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان بن گیا۔ برطانوی حکومت اپنا بوریا بستر لے کر ہندوستان سے چل پڑی۔ مگر چلتے وقت سرظفر اﷲ خاں کو پاکستان میں متعین کر گئی۔ یہ صاحب اپنی انگریز دوستی میں مشہور بلکہ انگریز ہی کے ساختہ وپرداختہ تھے اور انگریز حکمران جانتے تھے کہ تنہا یہی شخص ہے جو اس سرزمین پر انگریز کے مفاد کا ضامن ہوگا اور اس ملک کو برطانیہ کا خیمہ بردار بنا کر رکھے گا۔ چنانچہ اس غرض کے لئے محمد علی جناح مرحوم کو دھوکا دیا گیا۔ بلکہ بعض واقفین کے قول کے بمطابق ان پر زور ڈالا گیا کہ سرظفر اﷲ خان کو پاکستانی کابینہ میں لے لیں اور خاص طور پر وزارت خارجہ کا قلمدان ان کے سپرد کر دیں۔ کیونکہ انگریز اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہی شعبہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس کے زیر اثر آنے کے بعد یہ ممکن تھا کہ مشرق وسطی پر ان سامراجیوں کی سیاست مسلط رہے۔ کیونکہ پاکستان دنیاکی سب سے بڑی اسلامی حکومت ہے اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں پر اس کا اثر پڑنا ناگزیر ہے۔ بہرحال اس نئی مملکت کے وزیرخارجہ سرظفر اﷲ خان ہوئے۔ جن کا ایمان یہ ہے کہ اس ملک کی غالب اکثریت کافر ہے۔ کیونکہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کو نہیں مانتی۔ ظفر اﷲ خان کا ایسا سمجھنا ان کے دین وعقیدہ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے رفقاء نے تصریح کی ہے کہ جو مسلمان اس نئے دین پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر ہیں۔ ان کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ ان کو لڑکی دینا جائز نہیں۔ الغرض ان کے ساتھ کفار کا سامعاملہ کرنا چاہئے۔ مرزابشیرالدین ابن غلام احمد اور موجودہ خلیفہ اپنی کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ