اسی میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہ عقیدہ کہ حضرت محمدﷺ خاتم النبیین ہیں۔ تنہا یہی وہ عامل ہے جو اسلام اور ان ادیان کے درمیان ایک مکمل سرحدی خط (Line Of Demacration) کھینچتا ہے۔ جو توحید میں مسلمانوں کے ہم عقیدہ ہیں اور محمدﷺ کی نبوت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن وحی ونبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے قائل نہیں ہے۔ جیسے کہ ہندوستان میں برہموسماج۔ اور یہی وہ چیز ہے جسے دیکھ کر کسی گروہ پر داخل اسلام یا خارج اسلام ہونے کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ میں تاریخ میں کسی ایسے مسلمان گروہ کا نام نہیں جانتا جس نے اس خط کو پھاندجانے کی جرأت کی ہو۔ ایران کے فرقہ بہائیہ نے ضرور عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا۔ لیکن انہوں نے صاف صاف یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایک الگ جماعت ہیں جو عرف عام کے اعتبار سے مسلمان نہیں۔‘‘
’’بے شک ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام اﷲ تعالیٰ کی طرف آیا ہوا دین ہے۔ لیکن اس کا قیام بحیثیت ایک سوسائٹی یا بحیثیت ایک امت سراسر حضرت محمدؐ کی شخصیت پر موقوف ہے۔ اس لئے قادیانیوں کے سامنے بس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور خود کو مسلمانوں سے جدا کرلیں۔ یا ختم نبوت کی انوکھی تفسیر سے دست بردار ہوجائیں۔ ورنہ ان کی یہ سیاسی ڈھب کی تاویلات ان کے دل کے اس چور کی غمازی کررہی ہیں کہ یہ لوگ صرف ان فوائد کے لالچ میں مسلمانوں کے دائرے میں گھسے رہنا چاہتے ہیں جو فوائد مسلمان کے نام سے وابستہ ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر ان فوائد اور منافع میں انہیں کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔‘‘
موصوف ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہر وہ گروہ جو معروف ومصطلح اسلام سے انحراف کرے اور اس کا دینی فکرومزاج ایک نئی نبوت کی بنیاد پر استوار ہو اور وہ ان تمام مسلمانوں کی صاف صاف تکفیر کرتا ہو جو اس نئی خانہ ساز نبوت کی تصدیق نہ کریں۔ وہ گروہ اسلام کی سالمیت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس پر سختی سے نظر رکھنی چاہئے۔ اسلامی معاشرہ کی وحدت صرف عقیدہ ختم نبوت پر منحصر ہے۔‘‘ یہ تھا اقبال جیسے روشن خیال فاضل کا رویہ قادیانیت کے بارے میں۔ لیکن وقت گذرتا رہا قادیانی اپنے کام میں مشغول رہے۔ فتنے اٹھاتے رہے۔ مناظرے کرتے رہے۔ شکوک وشبہات کا روگ لگاتے رہے اور انگریزی سیاست کی خدمت کرتے رہے۔ ان کا مرکز ضلع