علامہ مرحوم نے ہندوستان کے مشہور انگریزی اخبار ’’اسٹیٹس مین‘‘ جس نے ایک بار اس مسئلہ کو اٹھایا تھا۔ ایک مراسلہ لکھا کہ: ’’قادیانیت حضرت محمدﷺ کی نبوت کے متوازی ایک علیحدہ نبوت پر ایک نئے گروہ کی بنیاد رکھنے کی منظم کوشش کا ناکام ہے ۔‘‘
(اسٹیٹس مین، مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۳۵ئ)
اور اسی زمانہ میں جب ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ سوال کیا کہ مسلمان قادیانیوں کو اسلام سے جدا کرنے پر آخر کیوں اصرار کرتے ہیں جب کہ قادیانی بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقوں کی طرح انہی کا ایک فرقہ۱؎ ہیں۔ تو علامہ مرحوم ہی نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہم اس بات پر اس لئے مصر ہیں کہ: ’’قادیانی تحریک نبی عربیﷺ کی امت میں سے نبی ہندی کی امت کو تراشنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
اور کہا کہ: ’’ہندوستان میں اسلام کی حیات اجتماعیہ کے لئے یہ تحریک اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جتنی یہودی نظام حیات کے لئے یہود کے ایک باغی فلسفی ’’اسپینوزا‘‘ (SPINOZA) کے عقائد ہوسکتے تھے۔‘‘ اﷲ تعالیٰ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کے لئے ڈاکٹر اقبال مرحوم کا سینہ کھول دیا تھا اور وہ اس حقیقت سے کما حقہ آشنا تھے کہ یہ عقیدہ ہی اسلام کی حیات اجتماعی اور امت کی شیرازہ بندی کا واحد محافظ ہے اور اس عقیدہ سے بغاوت کسی حال میں رعایت کی مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بغاوت قصر اسلامی کی بنیاد پر تیشہ چلانے کے مترادف ہے۔ ماقبل میں ’’اسٹیٹس مین‘‘ کے جس مراسلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
۱؎ ہندوستان کے وطن پرست لیڈر عام طور پر قادیانیت کو پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ اگر پھیلے گی تو ہندوستان کے تقدس میں اضافہ ہوگا اور مسلمان اپنا رخ حجاز سے پھیر کر ہندوستان ہی کو اپنا قبلہ اور اپنا روحانی مرکز قرار دے لیں گے اور جیسا کہ ان لیڈروں کا خیال ہے۔ اس سے مسلمانوں کے دلوں میں وطن پرستی کی جڑیں بہت مضبوط ہوجائیں گی۔ جن دنوں پاکستان میں قادیانیت دشمن تحریک چل رہی تھی۔ بعض ہندو اخبارات کو قادیانیوں کے ساتھ بڑی ہمدردی تھی۔ ان اخبارات نے قادیانیوں کی تائید میں مضامین شائع کئے۔ اپنے پڑھنے والوں کو جمہور مسلمانوں کے مقابلہ میں قادیانیوں کا مؤید اور ہمنواء بنانے کی کوشش کی اور یہاں تک لکھ گئے کہ پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کی یہ کشمکش دراصل عربی نبوت اور ہندی نبوت کی کشمکش ہے اور ان دو مختلف بنوتوں کے پیرئووں کی کشمکش ہے۔