نہیں باعث مسرت تھے۔ انہیں کبھی عام زندگی سے، اسلامی مسائل سے، یا ان اسلامی تحریکات سے جو اسلامی حمیت یا سیاسی شعور کا نتیجہ تھیں۔ کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ان کا کام ہمیشہ مذہبی مباحثے اور موشگافیاں تھیں اور ان کی دلچسپیوں کادائرہ صرف وفات مسیح، حیات مسیح، نزول مسیح اور نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر مباحثوں اور مناظروں تک محدود رہا۔
ہندوستان کے علماء اسلام اور ارباب فکر ونظر نے اس قادیانی فتنہ کو بہت اندیشہ کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے زبان وقلم اور علم کے ہتھیاروں سے اس فتنہ کی جڑ کاٹنے کی پوری پوری کوشش کی اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے سیاسی اقتدار کے دور میں جو خود اس فتنہ کا مربی اور سرپرست ہو۔ اس لئے زیادہ کوئی کوشش ممکن نہ تھی۔ ان مجاہدین اسلام میں سرفہرست ان چار حضرات کے نام ہیں۔ مولانا محمد حسین بٹالویؒ، مولانا محمدعلی مونگیریؒ (بانی ندوۃ العلمائ) مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور اسلامی جماعتوں میں سے سب سے جوش اور سرگرمی سے اس باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام رہی۔ جس کے قائد اور روح رواں سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔
اور انہیں کے زمرہ میں اسلام کے مایہ ناز مفکر ڈاکٹر محمداقبالؒ بھی ہیں۔ جنہوں نے اپنی بعض تصنیفات میں بہت صاف صاف لکھا کہ قادیانیت نبوت محمدی کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ ایک مستقل دین ہے۔ اس کے ماننے والے ایک الگ امت ہیں اور یہ امت عظیم اسلامی امت کا ہرگز جزو نہیں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اقبالؒ کوئی دقیانوسی آدمی نہ تھے۔ ان کا شمار دنیائے اسلام کے منتخب تعلیم یافتہ اور روشن خیال افراد میں تھا اور وہ اتحاد اسلامی کے ان اول درجہ کے داعیوں میں سے تھے۔ جن کی دعوت کا اولین اصول بے تعصبی اور روا داری ہے۔ لیکن چونکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو قریب سے جانتے تھے۱؎ا ور اس کے مذہب اور اس کے مقاصد واسرار سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اس لئے وہ بھی اس فتنہ کے ساتھ سخت رویہ کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ پہلے شخص تھے جس نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرکے ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا خیال پیش کیا۔ یہاں ہم ان کے مقالات اور خطبات کے بعض اقتباسات پیش کرتے ہیں۔
۱؎ معلوم ہوا کہ بانی قادیانیت اور علامہ موصوف دونوں پنجاب ہی کے رہنے والے تھے۔