ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں نہ مال ہے نہ اسلحہ۔ وہ ایک عقیدہ اور ایک دین کی دعوت دیتا ہے اور کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایک نئی امت ، ایک نئی حکومت، ایک نئی تہذیب وجود میں آجاتی ہے۔ وہ تاریخ کا رخ تبدیل کر دیتا ہے اور واقعات کا دھارا بدل دیتا ہے۔ ان کی بلند حوصلہ طبیعتوں نے ان سے کہا کہ اس کا نیا تجربہ کیوں نہ کیا جائے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ ذہانت، دماغی صلاحیت، تنظیمی لیاقت بھی رکھتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ پھر کیوں نہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور کس طرح انہیں واقعات کا ظہور نہ ہوگا۔ جو طبعی اسباب اور عمل کے ماتحت گزشتہ دور میں ہوچکے ہیں۔ ان کو امید تھی کہ پھر اسی معجزہ کا ظہور ہوگا۔ جس کا تاریخ نے چھٹی صدی میں مشاہدہ کیا۔ اس لئے کہ فطرت انسانی ناقابل تبدیل ہے اور لوگوں میں ہمیشہ سے ہر دعوت قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔
ان بلند حوصلہ انسانوں نے اس یکہ وتنہا ہستی کو تو دیکھا جو بغیر کسی سرمایہ اور بغیر کسی فوجی طاقت وحمایت کے ایک دینی دعوت لے کر کھڑی ہوئی۔ لیکن اس کے پیچھے اس ربانی حمایت اور ارادۂ الٰہی کو نہیں دیکھا جو اس کی کامیابی، غلبہ اور قیامت تک باقی رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور جس نے اعلان کر دیا تھا۔
’’ھوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون (الصف:۹)‘‘
{وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ تاکہ سب دینوں پر غالب کرے۔ خواہ شرک کرنے والے کتنا ہی برا مانیں۔}
نتیجہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر ان کی کوششیں کامیاب اور بارآور ہوئیں اور انہوں نے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے ساتھی اور پیرو پیدا کر لئے۔ ان میں سے بعض (باطنیہ) نے عظیم الشان سلطنت (فاطمیہ) بھی قائم کر لی اور یہ سلطنت عرصہ تک پھلی پھولی اور ایک زمانہ میں اس نے سوڈان سے مراکش تک قبضہ کر لیا۔
لیکن جب تک ان کی تنظیم ان کے مخفی انتظامات اور ان کی شعبدہ بازیاں باقی رہیں۔ یہ عروج بھی باقی رہا۔
لیکن پھر وقت آیا کہ یہ سب عروج واقتدار اور یہ سب ترقی واقبال ایک افسانہ بن کر رہ