یورپ اور ہندوستان کے اندرا سلام کی تبلیغ واشاعت کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدوجہد کا تمام تر میدان مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیرضروری مذہبی کشمکش ہے۔ جو اس نے اسلامی معاشرے میں پیدا کر دی ہے۔ وہ اگر کسی چیز میں کامیاب کہے جاسکتے ہیںتو صرف اس میں کہ انہوں نے اپنے خاندان اور ورثاء کے لئے سرآغا خاں کے اسلاف کی طرح پیشوائی کی ایک مسند اور ایک دینی ریاست پیدا کر دی ہے۔ جس کے اندر ان کو روحانی سیادت اور مادی عیش وعشرت حاصل ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں وہ ذہنی انتشار نہ ہوتا۔ جس کا پنجاب خاص میدان تھا۔ اگر انگریزی حکومت کے اثر سے اسلامی معاشرہ میں اسلام کی بنیادیں متزلزل اور اسلامی ذہن ماؤف نہ ہو چکا ہوتا۔ اگر مسلمانوں کی نئی نسل دینی تعلیمات اور اسلام کی اصلاحی وتجدیدی شخصیتوں اور نیابت انبیاء اور عظمت انسانی کی حقیقی صفات سے اتنی بے خبر نہ ہوتی اور آخر میں حکومت وقت کی پشت پناہی اور سرپرستی نہ ہوتی تو یہ تحریک جس کی بنیاد زیادہ تر الہامات، خوابوں، تاویلات اور بے کیف وبے مغز نکتہ آفرینیوں پر ہے اور جو عصر جدید کے لئے کوئی نیا اخلاقی وروحانی پیغام اور مسائل حاضرہ کو حل کرنے کے لئے کوئی مجتہدانہ مقام نہیں رکھتیں۔ کبھی بھی اتنی مدت تک باقی نہیں رہ سکتی تھی۔ جیسی کہ اس برسرانحطاط سوسائٹی اور اس پراگندہ دماغ، پراگندہ دل نسل میں رہ سکی۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اور دعوت سے انحراف اور ان مخلصین ومجاہدین کی (جو ماضی قریب میں اس ملک میں پیدا ہوئے اور اسلام کے عروج اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اپنا سب کچھ مٹا کر چلے گئے) ناقدری کی سزا خدا نے یہ دی کہ ہندوستانی مسلمانوں پر ایک نئے ذہنی طاعون کو مسلط کر دیا اور ایک شخص کو ان کے درمیان کھڑا کر دیا۔ جو امت میں فساد کا مستقل بیج بوگیا ہے۔
دوسال ہوئے دمشق یونیورسٹی کے طلبہ واساتذہ کے سامنے اسلام کی تاریخ اصلاح وتجدید کے موضوع پر ایک سلسلۂ تقریر کے دوران میں راقم سطور نے تحریک باطنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
حضرات! میں جب باطنیت، اخوان الصفاء اور ایران کی بہائی اور ہندوستان کی قادیانیت کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ان تحریک کے بانیوں نے اسلام اور بعثت محمدی کی تاریخ پڑھی تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص تنہا جزیرۃ العرب میں ایک دعوت لے کر کھڑا