وسیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہواتھا۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے حقیقی مسائل مشکلات اور وقت کے اصلاحی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں، علم وقلم کی طاقت ایک ہی مسئلہ پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وفات مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ۔
اس مسئلہ سے جوکچھ وقت بچتا ہے وہ حرمت جہاد اور حکومت وقت کی وفاداری اور اخلاص کی دعوت کی نذر ہو جاتا ہے۔ ربع صدی کی تصنیفی وعلمی زندگی اور جدوجہد کا موضوع اور ان کی دلچسپیوں کا مرکز یہی مسئلہ اور اس کے سلسلہ میں مخالفین سے نبرد آزمائی اور معرکہ آرائی ہے۔ اگر ان کی تصنیفات سے ان مضامین کو خارج کر دیا جائے جو حیات مسیح ونزول مسیح اور ان کے دعاوی اور اس سے پیدا ہونے والے مباحث سے متعلق ہیں تو ان کے تصنیفی کارنامہ کی ساری اہمیت اور وسعت ختم ہو جائے گی۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس عالم اسلام میں جو پہلے سے مذہبی اختلافات اور دینی نزاعات کا شکار تھا اور جس میں اب کسی نزاع کے برداشت کرنے کی طاقت نہ تھی۔ وہ نئی نبوت کا علم بلند کرتے ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اور مسلمانوں کے درمیان ایک آہنی اور ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ جس کے ایک جانب ان کے متبعین کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو چند ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف پورا عالم اسلام ہے جو مراکش سے چین تک پھیلا ہوا ہے اور جس میں عظیم ترین افراد، صالح ترین جماعتیں اور مفید ترین ادارے ہیں۔ اس طرح انہوں نے عالم اسلام میں بلا ضرورت ایسا انتشار اور ایک ایسی نئی تقسیم پیدا کر دی جس نے مسلمانوں کی مشکلات میں ایک نیا اضافہ اور عصر حاضر کے مسائل میں نئی پیچیدگی پیدا کر دی۔
مرزاغلام احمدقادیانی نے درحقیقت اسلام کے علمی ودینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا۔ جس کے لئے اصلاح وتجدید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسل جدید ان کی شکرگزار ہو۔ انہوں نے نہ تو کوئی عمومی دینی خدمت انجام دی جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے۔ نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا۔نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لئے جو سخت مشکلات اور موت وحیات کی کشمکش سے دوچار ہے۔ کوئی پیغام رکھتی ہے۔ نہ اس نے