ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اس اخلاقی وذہنی انحطاط کی بڑھتی ہوئی روکو رو کے اور اس خطرناک رجحان کا مقابلہ کرے جو محکومیت وغلامی کے اس دور میں پیدا ہوگیا تھا۔ تعلیمی اور علمی حیثیت سے حالت یہ تھی کہ عوام اور محنت کش طبقہ دین کے مبادی واوّلیات سے ناواقف اور دین کے فرائض سے بھی غافل تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ شریعت اسلامی، تاریخ اسلام اور اپنے ماضی سے بے خبر اور اسلام کے مستقبل سے مایوس تھا۔ اسلامی علوم روبہ زوال اور پرانے تعلیمی مرکز عالم نزع میں تھے۔ اس وقت ایک طاقتور تعلیمی تحریک اور دعوت کی ضرورت تھی۔ نئے مکاتب ومدارس کے قیام، نئی اور مؤثر اسلامی تصنیفات اور نئے سلسلہ نشر واشاعت کی ضرورت تھی جو امت کے مختلف طبقوں میں مذہبی واقفیت، دینی شعور اور ذہنی اطمینان پیدا کرے۔
اس سب کے علاوہ اور اس سب سے بڑھ کر عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اس امت کو ایمان اور عمل صالح اور اس صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے۔ جس پر اﷲ تعالیٰ نے فتح ونصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین ودنیا میں فلاح وسعادت اور سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کی ضرورت دین جدید نہیں۔ ایمان جدید ہے۔ کسی دور میں بھی اس کو نئے دین اور نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں تھی۔ دین کے ان ابدی حقائق وعقائد اور تعلیمات پر نئے ایمان اور نئے جوش کی ضرورت تھی۔ جس سے زمانہ کے نئے فتنوں اور زندگی کی نئی ترغیبات کا مقابلہ کیا جاسکے۔
زندگی کے ان شعبوں اور ضرورتوں کے لئے جن کا اوپر تذکرہ ہوا۔ عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں مختلف شخصیتیں اور جماعتیں سامنے آئیں۔ جنہوں نے بغیر کسی دعوے اور بغیر امت سازی کی کوشش کے، وقت کی ان ضرورتوں اور مطالبوں کو پورا کیا اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ انہوں نے کسی نئے مذہب اور کسی نئی نبوت کا علم بلند نہیں کیا اور نہ مسلمانوں میں کوئی تفریق اور انتشار پیداکیا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کسی بے نتیجہ کام میں ضائع نہیں کیا۔ ان کا نفع ہر ضرر سے خالی، ان کی دعوت ہر خطرہ سے پاک اور ان کا کام ہر شبہ سے بالا تر ہے۔ عالم اسلام نے اپنا کچھ کھوئے بغیر ان سے نفع حاصل کیا اور مسلمان ان کی مخلصانہ خدمات کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔
ایک ایسے نازک وقت میں عالم اسلام کے نازک ترین مقام ہندوستان میں جو ذہنی