۔ یہ تھا کہ اسی زمانہ میں یورپ نے عالم اسلام پر بالعموم اور ہندوستان پر بالخصوص یورش کی تھی۔ اس کے جلو میں جو نظام تعلیم تھا وہ خداپرستی اور خداشناسی کی روح سے عاری تھا۔ جو تہذیب تھی وہ الحاد اور نفس پرستی سے معمور تھی۔ عالم اسلام، ایمان، علم اور مادی طاقت میں کمزور ہو جانے کی وجہ سے اس نوخیز ومسلح مغربی طاقت کا آسانی سے شکار ہوگیا۔ اس وقت مذہب میں (جس کی نمائندگی کے لئے صرف اسلام ہی میدان میں تھا) اور یورپ کی ملحدانہ اور مادہ پرست تہذیب میں تصادم ہوا۔ اس تصادم نے ایسے نئے سیاسی، تمدنی، علمی اور اجتماعی مسائل پیدا کر دئیے۔ جن کو صرف طاقتور ایمان، راسخ وغیرمتزلزل عقیدہ ویقین، وسیع اور عمیق علم، غیرمشکوک اعتماد واستقامت ہی سے حل کیا جاسکتا تھا۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک طاقتور علمی وروحانی شخصیت کی ضرورت تھی جو عالم اسلام میں روح جہاد اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر دے۔ جو اپنی ایمانی قوت اور دماغی صلاحیت سے دین میں ادنیٰ تحریف وترمیم کئے بغیر اسلام کے ابدی پیغام اور عصر حاضر کی بے چین روح کے درمیان مصالحت ورفاقت پیدا کر سکے اور شوخ وپرجوش مغرب سے آنکھیں ملا سکے۔
دوسری طرف عالم اسلام مختلف دینی واخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا۔ اس کے چہرے کا سب سے بڑا داغ وہ شرک جلی تھا جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا۔ قبریں اور تعزئیے بے محابا پج رہے تھے۔ غیراﷲ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی۔ بدعات کا گھر گھر چرچا تھا۔ خرافات اور توہمات کا دور دورہ تھا۔ یہ صورتحال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید وسنت کی دعوت اور اپنی پوری قوت کے ساتھ ’’الا ﷲ الدین الخالص‘‘ کا نعرہ بلند کرے۔
اسی کے ساتھ بیرونی حکومت اور مادہ پرست تہذیب کے اثر سے مسلمانوں میں ایک خطرناک اجتماعی انتشار اورافسوسناک اخلاقی زوال رونما تھا۔ اخلاقی انحطاط، فسق وفجور کی حد تک، تعیش واسراف، نفس پرستی کی حد تک، حکومت واہل حکومت سے مرعوبیت ذہنی غلامی اور ذلت کی حد تک، مغربی تہذیب کی نقالی اور حکمران قوم (انگریز) کی تقلید کفر کی حد تک پہنچ رہی تھی۔ اس وقت