عقیدہ نہ ہو تو انسان ہمیشہ تذبذب وبے اعتمادی کے عالم میں رہے گا۔ وہ ہمیشہ زمین کی طرف دیکھنے کے بجائے آسمان کی طرف دیکھے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مستقبل سے غیرمطمئن اور متشکک رہے گا۔ اس کو ہر مرتبہ ہر نیا شخص یہ بتلائے گا کہ گلشن انسانیت اور روضۂ آدم ابھی نامکمل تھا۔ اب وہ برگ وبار سے مکمل ہوا ہے اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ جب اس وقت تک یہ نامکمل رہا تو آئندہ کی کیا ضمانت ہے۔ اس طرح وہ بجائے اس کی آبیاری اور اس کے پھلوں اور پھولوں سے متمتع ہونے کے نئے باغبان کا منتظر رہے گا جو اس کو برگ وبار سے مکمل کرے۔
قادیانیت کی جسارت اور جدت
اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً جو تحریکیں اٹھیں۔ ان میں قادیانیت کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ وہ تحریکیں یا تو اسلام کے نظام حکومت کے خلاف تھیں۔ یا شریعت اسلامی کے خلاف، لیکن قادیانیت درحقیقت نبوت محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔ وہ اسلام کی ابدیت اور امت کی وحدت کو چیلنج ہے۔ اس نے ختم نبوت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا جو اس امت کو دوسری امتوں سے ممتاز ومنفصل کرتا ہے اور جو کسی مملکت کے حدود کو حاصر کرنے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں جو ہندوستان کے مشہور اخبار اسٹیٹس مین (Statesman) میں شائع ہوا تھا۔ بڑی خوبی سے قادیانیت کی اس جسارت اور جدت کو واضح کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں: ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے۔ جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت، الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمؐ کی ختم رسالت پر ایمان، دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو سماج خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریمﷺ کی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو