راہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا ختم نبوت کی تاویلیوں کو چھوڑ کر اس اصول کو پورے مفہوم کے ساتھ قبول کرلیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلام میں ہو۔تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۵،۱۳۶)
ایک دوسرے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’مسلمان ان تحریکوں کے مقابلہ میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو۔ لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’یہ ظاہر ہے کہ اسلام جو تمام جماعتوں کو ایک رسی میں پرونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ایسی تحریک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھ سکتا۔ جو اس کی موجودہ وحدت کے لئے خطرہ ہو اور مستقبل میں انسانی سوسائٹی کے لئے مزید افتراق کا باعث ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۲۲،۱۲۳)دعویداران نبوت
مرزاغلام احمد قادیانی کی جدوجہد اور تحریک کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ نبوت کی حرمت وعظمت اور اس منصب کی آبرو اور شرف اٹھ جائے۔ انہوں نے نبوت کے اجراء وتسلسل پر جو زور قلم صرف کیا اور اس کی جس طرح تبلیغ واشاعت کی۔ انہوں نے الہام کو جو اہمیت دی اور اس پر جس طرح نبوت کی بنیاد رکھی۔ اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے کہ نبوت بازیچۂ اطفال بن جائے۔ وہ اگرچہ نبوت کے اجراء تسلسل کی تقریر محض اپنی نبوت کے امکان وثبوت کے لئے کرتے ہیں اور ختم نبوت کا اظہار محض اپنی حد تک ہے۔ ورنہ آنے والوں کے لئے وہ اپنے ہی کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۱؎۔
۱؎ خطبہ الہامیہ ص۱۱۲، خزائن ج۱۶ ص۱۷۷،۱۷۸ میں مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’فکان خالیا موضع لبنۃ اعنی المنعم علیہ من ہذہ العمارۃ فاراد اﷲ ان یتم النباء ویکمل البناء باللبنۃ الاخیرۃ ایہا الناظرون‘‘ خود وہی اس کا ترجمہ فرماتے ہیں: ’’اور اس عمارت میں ایک امت کی جگہ خالی تھی۔ یعنی منعم علیہم پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیش گوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کر کمال تک پہنچا دے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘