عظیم الشان اجتماع اور عبادت کا دن ہے۔ اس موقع پر دو عیدیں جمع تھیں۔ یوم عرفہ (۹؍ذی الحجہ) اور روز جمعہ۔
ذہنی انتشار سے حفاظت
اس عقیدہ نے اسلام کو انتشار پیدا کرنے والی اور ملت کو پارہ پارہ کرنے والی ان تحریکات اور دعوتوں کا شکار ہونے سے بچایا جو تاریخ اسلام کی طویل مدت اور عالم اسلام کے وسیع رقبہ میں وقتاً فوقتاً سراٹھاتی رہیں۔ اسی عقیدہ کا فیض تھا کہ اسلام ان مدعیان نبوت اور محرفین اسلام کا بازیچہ اطفال بننے سے محفوظ رہا۔ جو تاریخ کے مختلف وقفوں اور عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں پیدا ہوتے رہے۔ ختم نبوت کے اسی حصار کے اندر یہ ملت ان مدعیوں کے دستبرد اور یورش سے محفوظ رہی۔ جو اس کے ڈھانچے کو بدل کر ایک نیا ڈھانچہ بنانا چاہتے تھے اور وہ ان تمام سازشوں اور خطرناک حملوں کا مقابلہ کر سکی۔ جن سے کسی پیغمبر کی امت اس سے پہلے محفوظ نہیں رہی اور اتنے طویل عرصہ تک اس کی دینی اور اعتقادی یکسانیت قائم رہی۔ اگر یہ عقیدہ اور حصار نہ ہوتا تو یہ امت واحدہ ایسی مختلف اور متعدد امتوں میں تقسیم ہو جاتی۔ جن میں سے ہر امت کا روحانی مرکز الگ ہوتا۔ علمی وتہذہبی سرچشمہ الگ ہوتا۔ ہر ایک کی الگ تاریخ ہوتی۔ ہر ایک کے الگ اسلاف اور مذہبی پیشوا اور مقتداء ہوتے۔ ہر ایک کا الگ ماضی ہوتا۔
ختم نبوت کا زندگی اور تمدن پر احسان
عقیدہ ختم نبوت درحقیقت نوع انسانی کے لئے ایک شرف وامتیاز ہے۔ وہ اس بات کا اعلان ہے کہ نوع انسانی سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس میں یہ لیاقت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے۔ اب انسانی معاشرے کو کسی نئی وحی، کسی نئی آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر خود اعتمادی کی روح پیدا ہوتی ہے۔ اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا ہے اور اب دنیا کو اس سے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ اب دنیا کو نئی وحی کے لئے آسمان کی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی پیدا کی ہوئی، طاقتوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا کے نازل کئے ہوئے دین واخلاق کے بنیادی اصولوں پر زندگی کی تنظیم کے لئے زمین کی طرف اور اپنی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت انسان کو پیچھے کی طرف لے جانے کے بجائے آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے اپنی طاقتوں کو صرف کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو اپنی جدوجہد کا حقیقی میدان اور رخ بتلاتا ہے۔ اگر ختم نبوت کا