ان کے ساتھ سودے، معاہدے اور پیکٹ کئے جاتے ہیں۔ کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دے دیں۔
اس تاریکی میں، اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں اور محبان وطن کو ایک ہی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے وہ قادیان کو اپنا مکہ تصور کرنے لگیں گے اور آخر میں محب ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلام ازم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آؤ ہم احمدیہ تحریک کا قومی نگاہ سے مطالعہ کریں۔ پنجاب کی سرزمین میں ایک شخص مرزاغلام احمد قادیانی اٹھتا ہے اور مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اے مسلمانو! خدا نے قرآن میں جس نبی کے آنے کا ذکر کیا ہے وہ میں ہی ہوں۔ آؤ میرے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔ اگر نہیں آؤ گے تو خدا تمہیں قیامت کے روز نہیں بخشے گا اور تم دوزخی ہو جاؤ گے۔ میں مرزاقادیانی کے اس اعلان کی صداقت یا بطالت پر بحث نہ کرتے ہوئے صرف یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ مرزائی مسلمان بننے سے مسلمانوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ ایک مرزائی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ:
۱…
خدا سمے سمے پر لوگوں کی رہبری کے لئے ایک انسان پیدا کرتا ہے جو اس وقت کا نبی ہوتا ہے۔
۲…
خدا نے عرب کے لوگوں میں ان کی اخلاقی گراوٹ کے زمانہ میں حضرت محمدﷺ کو نبی بنا کر بھیجا۔
۳…
حضرت محمد(ﷺ) کے بعد خدا کو ایک نبی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس لئے مرزاقادیانی کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔
میرے قوم پرست بھائی سوال کریں گے کہ ان عقیدوں سے ہندوستانی قوم پرستی کا کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے پر اس کی شردھا اور عقیدت رام کرشن، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بھومی میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے۔ حضرت محمد(ﷺ) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ علاوہ بریں جہاں اس کی خلافت پہلے