واقع ہے۔ جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے: ’’مبارک ومبارک وکل امر مبارک جعل فیہ‘‘ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا۔ قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۳۵۲، طبع۳)
ان سب بیانات اور قادیان کے بارے میں اعتقادات کا منطقی اور طبعی نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ اس کے لئے شدر حال کر کے سفر کرنے اور وہاں سال بسال حاضر ہونے کو حج ہی کا سا ایک مقدس عمل بلکہ ایک طرح کا حج سمجھا جانے لگے۔ چنانچہ قادیانیت کے رہنماؤں اور ذمہ داروں نے سفر قادیان کو ظلی حج کا لقب دیا ہے اور اس کو ان لوگوں کے لئے جو خانۂ کعبہ کے حج کو نہ جاسکیں۔ ’’حج اسلام کا حج بدل‘‘ قرار دیا ہے۔ مرزابشیرالدین محمود نے اپنے ایک خطبۂ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ’’چونکہ حج پروہی لوگ جاسکتے ہیں جو مقدرت رکھتے اور امیر ہوں، حالانکہ الٰہی تحریکات پہلے غرباء میں پھیلتی اور پنپتی ہیں اور غرباء کو حج سے شریعت نے معذور رکھا ہے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے ایک اور ظلی حج مقرر کیا تاوہ قوم جس سے وہ اسلام کی ترقی کا کام لینا چاہتا ہے اور تاوہ غریب یعنی ہندوستان کے مسلمان اس میں شامل ہوسکیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ یکم؍دسمبر ۱۹۳۲ئ)
اس بارے میں اتنا غلو ہونے لگا کہ قادیان کے سفر کو حج بیت اﷲ پر ترجیح دی جانے لگی اور یہ اس ذہنیت کا لازمی وقدرتی نتیجہ ہے کہ قادیانیت ایک زندہ اور جدید مذہب اور اس کا مرکز ایک زندہ اور جدید مذہب کا روحانی مرکز ثقل ہے۔ جس سے نئی زندگی اور نئی مذہبی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی بناء پر ایک قادیانی بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جیسے احمدیت کے بغیر پہلا یعنی حضرت مرزاصاحب کو چھوڑ کر جو اسلام باقی رہ جاتا ہے۔ وہ خشک اسلام ہے۔ اسی طرح اس حج ظلی کو چھوڑ کر مکہ والا حج بھی خشک حج رہ جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں پر آج کل کے حج کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔‘‘ (پیغام صلح ج۲۱ نمبر۲۲)
انفرادیت کا رجحان اور ایک مستقل دین اور نئی تاریخ کے آغاز کااحساس اتنا بڑھ گیا کہ قادیانی حضرات نے اپنی نئی تقویم کی بنیاد ڈال دی اور سال کے مہینوں کے نئے ناموں سے تاریخ لکھنے لگے۔ قادیانیت کے سرکاری ترجمان ’’الفضل‘‘ میں مہینوں کے جو نام چھپتے ہیں۔ وہ حسب ذیل ہیں: ’’صلح، تبلیغ، امان، شہادت، ہجرت، احسان، وفا، ظہور، تبوک، اخائ، نبوت، فتح۔‘‘
خالص ہندوستانی مذہب ہونے کی حیثیت سے قادیانیت کا خیرمقدم
ان مذہبی تصورات اور انفرادیت کے رجحانات کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب وتحریک