شائع کیا تھا۔ جس میں ان شرکائے جلسہ کی دینی بے حسی اور بدذوقی کی شکایت کرتے ہوئے جو قادیان حاضر ہونے کے باوجود مرزاقادیانی کے مدفن پر حاضری نہیں دیتے۔ کہاگیا ہے: ’’کیا حال ہے اس شخص کا جو قادیان دارالامان میں آئے اور دوقدم چل کر مقبرۂ بہشتی میں حاضر نہ ہو۔ اس میں وہ روضۂ مطہرہ ہے جس میں اس خدا کے برگزیدہ کا جسم مبارک مدفون ہے۔ جسے افضل الرسل نے اپنا سلام بھیجا اور جس کی نسبت حضرت خاتم النبیین نے فرمایا: ’’یدفن معی فی قبری‘‘ اس اعتبار سے گنبد خضراء کے انوار کا پورا پورا پرتو اس گنبد بیضا پر پڑ رہا ہے اور آپ گویا ان برکات سے حصہ لے سکتے ہیں۔ جو رسول کریمﷺ کے مرقد منور سے مخصوص ہیں۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص، جو احمدیت کے حج اکبر میں اس تمتع سے محروم رہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۱۰ نمبر۴۸)
قادیانی اصحاب اس دینی وروحانی تعلق کی بناء پر جو نئی نبوت اور نئے اسلام کا مرکز ہونے کی بناء پر قادیان کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قادیان اسلام کے مقامات میں سے ایک اہم ترین اور عظیم ترین مقام ہے اور وہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ قادیان کا نام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ مرزابشیرالدین محمود نے اپنی ایک تقریر میں کہا: ’’ہم مدینہ منورہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح ہم قادیان کی عزت کر کے مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کی توہین کرنے والے نہیں ہوسکتے۔ خداتعالیٰ نے ان تینوں مقامات کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلی کے اظہار کے لئے چنا۔‘‘
خود مرزاغلام احمد قادیانی نے قادیان کو سرزمین حرم سے تشبیہ وتمثیل دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں ؎
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے(درثمین اردو ص۵۲)
ان کے نزدیک قادیان کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے۔ منارۃ المسیح کے اشتہار (۲۸؍مئی ۱۹۰۰ئ) میں آپ نے لکھا ہے: ’’جیسا کہ سیرمکانی کے لحاظ سے خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا۔ ایساہی سیرزمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرتﷺ کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔ پس اس پہلو کی رو سے جو اسلام کے انتہائے زمانہ تک آنحضرتﷺ کا سیر کشفی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں