قادیانی تحریک کا متوازی مذہبی نظام
قادیانی تحریک اسلام کے دینی نظام اور زندگی کے ڈھانچہ کے مقابلے میں ایک نیا دینی نظام اور زندگی کا نیا ڈھانچہ پیش کرتی ہے۔ وہ دینی زندگی کے تمام شعبوں اور مطالبوں کو بطور خود خانہ پری کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے پیروؤں کو جدید نبوت، جدید مرکز محبت وعقیدت، نئی دعوت، نئے روحانی مرکز اور مقدسات ، نئے مذہبی شعائر، نئے مقتدائ، نئے اکابر، نئی تاریخی شخصیتیں، عطاء کرتی ہے۔ غرض یہ کہ وہ قلب ودماغ اور فکر واعتقاد کا نیا مرکز قائم کرتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اس کو ایک فرقہ اور فقہی یا کلامی دبستان یا مکتب خیال سے زیادہ ایک مستقل مذہب اور نظام زندگی کی شکل عطا کرتی ہے۔ اس کے اندر اس بات کا ایک واضح رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ نئی مذہبی بنیادوں پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر کرے اور مذہبی زندگی کو ایک نئی شکل اور مستقل وجود بخشے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ جو افراد خلوص اور جوش کے ساتھ اس تحریک ودعوت کو قبول کرتے ہیں اور اس کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔ ان کے فکر واعتقاد کا مرکز بدل جاتا ہے اور ان کی زندگی میں قدیم دینی مرکزوں اور اداروں (اپنے وسیع معنی میں) اور شخصیتوں کی جگہ پر جدید دینی مرکز اور ادارے اور شخصیتیں آجاتی ہیں اور وہ ایک نئی امت بن جاتے ہیں جو اپنے جذبات، طریق فکر، عقیدت ومحبت میں ایک مستقل شخصیت اور وجود کے مالک ہوتے ہیں۔ انفرادیت اور تقابل کا یہ رجحان قادیانیت کے اندر شروع سے کام کر رہا ہے اور اب وہ بلوغ وپختگی کے اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ قادیانی اصحاب بے تکلفی اور سادگی کے ساتھ اسلامی شعائر ومقدسات کے ساتھ قادیانی شعائر اور مقدسات کا مقابلہ کرتے ہیں اور ان کا ہم پلہ اور مساوی قرار دیتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کو اسلام کے دینی نظام میں جو مرکز ومقام حاصل ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ لیکن قادیانی اصحاب مرزاقادیانی کے رفقاء اور ہم نشینوں کو صحابۂ رسول ہی کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک قادیانی ذمہ دار اس ذہنیت کی اس طرح ترجمانی کرتے ہیں: ’’ان دونوں گروہوں (صحابہ کرام اور رفقائے مرزاغلام احمد قادیانی) میں تفریق کرنی یا ایک کو دوسرے سے مجموعی رنگ میں افضل قرار دینا ٹھیک نہیں۔ یہ دونوں فرقے درحقیقت ایک ہی جماعت میں ہیں۔ صرف زمانہ کا فرق ہے۔ وہ بعثت اولیٰ کے تربیت یافتہ ہیں اور یہ بعثت ثانیہ کے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۱۸ئ)
اسی طرح وہ مرزاغلام احمد قادیانی کے مدفن کو مرقد رسولﷺ اور گنبد خضراء کا مماثل شبیہ بتاتے ہیں۔ الفضل نے ۱۸؍دسمبر ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں قادیان کے شعبۂ تربیت کا یہ بیان