اسی اشتہار میں دوسری جگہ اس التواء کی حکمت بیان کرتے ہیں: ’’قرآن بتلا رہا ہے کہ ایسی پیش گوئیوں کی میعادیں معلق تقدیر کی قسم میں سے ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کے تبدل اور تغیر کے وجوہ پیدا ہونے کے وقت ضرور وہ تاریخیں اور میعادیں ٹل جاتی ہیں۔ یہی سنت اﷲ ہے۔ جس سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ پس ہر ایک پیش گوئی جو وحی اور الہام کے ذریعے سے ہوگی۔ ضرور ہے کہ وہ اسی سنت کے موافق ہو۔ جو خداتعالیٰ کی کتابوں میں قرار پاچکی ہیں اور اس زمانہ میں اس سے یہ فائدہ بھی متصور ہے کہ جو علوم ربانی دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کی نظر ان پر پڑے اور معارف قرآنی کی تجدید ہو جائے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ص۴۵)
مرزاقادیانی کو بہرحال اس پیش گوئی کے صحیح ہونے پر اصرار اور اس کی تکمیل کا یقین تھا۔ انجام آتھم میں لکھتے ہیں: ’’میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ (سلطان محمد) کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کا انتظار کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۱)
مرزاسلطان محمد کی زندگی میں اﷲتعالیٰ نے بڑی برکت دی۔ وہ پہلی جنگ عظیم میں شریک ہوئے اور زخمی ہوئے۔ لیکن بچ گئے اور مرزاقادیانی کی وفات کے بعد عرصہ زندہ رہے۔
مرزاقادیانی نے ۱۹۰۸ء میں وفات پائی اور یہ نکاح جو بقول ان کے آسمان پر ہوچکا تھا۔ زمین پر نہ ہوسکا۔ لیکن جماعت کے راسخ العقیدہ افراد کے نزدیک اب بھی اس کے متعلق قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور جب تک نسل آدم کا سلسلہ باقی ہے۔ اس پیش گوئی کے تحقق کا امکان ہے۔ حکیم نورالدین صاحب نے اس کی عجیب تقریر فرمائی۔ وہ اپنے ایک مضمون میں جو وفات مسیح موعود کے عنوان سے ۱۹۰۸ء میں قادیان کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہوا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’اب وہ تمام اہل اسلام کو جو قرآن کریم پر ایمان لائے اور لاتے ہیں۔ ان آیات کا یاد دلانا مفید سمجھ کر لکھتا ہوں کہ جب مخاطبت میں مخاطب کی اولاد اور مخاطب کے جانشین اور اس کے مماثل داخل ہو سکتے ہیں تو احمد بیگ کی لڑکی یا اس لڑکی کی لڑکی کیا داخل نہیں ہوسکتی اور کیا آپ کے علم فرائض میں بنات البنات (لڑکیوں کی لڑکیوں) کو حکم بنات نہیں مل سکتا اور کیا مرزاقادیانی کی اولاد مرزاقادیانی کی عصبہ نہیں ۔ میں نے تو بارہا عزیز میاں محمود کو کہا کہ اگر حضرت (مرزاقادیانی) کی وفات ہو جائے اور یہ لڑکی نکاح میں نہ آوے تو میری عقیدت میں تزلزل نہیں آسکتا۔‘‘
(ریویو آف ریلیجزج۷، نمبر۷،۶، بابت جون،جولائی ۱۹۰۸ء ص۲۸۹)