لکھا کہ اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو واقعی مرزاقادیانی میرے شوہر سے مجھے طلاق دلوادیں گے اور میری خانہ بربادی ہو جائے گی۔ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۷)
فضل احمد مرحوم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ مرزاقادیانی کے دوسرے صاحبزادے مرزاسلطان احمد بھی محمدی بیگم کے گھر والوں کے ہمنواء تھے اور ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اس لئے مرزاقادیانی نے مرزاسلطان احمد کو بالفاظ خود عاق اور محروم الارث اور ان کی والدہ کو طلاق دے دی۔ (تبلیغ رسالت حصہ دوم ص۹،مجموعہ اشتہارات ج اوّل ص۲۲۱)
بالآخر ۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو محمدی بیگم کا مرزاسلطان محمد سے نکاح ہوگیا۔ مگر مرزاقادیانی اس کے بعد بھی پیش گوئی کی تکمیل سے مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے ۱۹۰۱ء میں عدالت ضلع گورداسپور میں حلفیہ بیان میں کہا: ’’سچ ہے وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی۔ مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا۔ جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔ وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اس عدالت میں جہاں ان باتوں پر جو میری طرف سے نہیں ہیں۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہیں۔ ہنسی کی گئی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ عجب اثر پڑے گا اور سب کے ندامت سے سر نیچے ہوں گے۔ عورت اب تک زندہ ہے میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی۔ امید یقین کامل ہے۔ خدا کی باتیں ٹلتی نہیں ہوکر رہیں گی۔‘‘ (اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ) مرزاقادیانی نے اپنے پہلے اشتہار میں پیش گوئی کی تھی کہ جس کسی دوسرے شخص سے محمدی بیگم کا نکاح ہوگا۔ وہ اڑھائی سال کے اندر انتقال کر جائے گا۔ یہ اڑھائی سال کی مدت گزر گئی اور مرزاسلطان محمد صاحب بقید حیات تھے اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔ مرزاقادیانی نے اس میعاد کے گزرجانے کے بعد اس میں توسیع فرمادی۔
اشتہار مورخہ ۶؍ستمبر ۱۸۹۶ء میں لکھتے ہیں: ’’عذاب کی میعاد ایک تقدیر معلق ہوتی ہے۔ جو خوف اور رجوع سے دوسرے وقت پر جاپڑتی ہے۔ جیسا کہ تمام قرآن اس پر شاہد ہے۔ لیکن نفس پیش گوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ: ’’لاتبدیل لکلمات اﷲ‘‘ یعنی میری بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)