مرزاعلی شیر بیگ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کر کے اپنے بھائی کو سمجھاتے تو کیوں نہ سمجھتا۔ کیا میں چوہڑا یا چمار تھا جو مجھ کو لڑکی دینا عارنگ تھی۔ بلکہ وہ تو اب تک ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور اپنے بھائی کے لئے مجھے چھوڑ دیا اور اب اس لڑکی کے نکاح کے لئے سب ایک ہوگئے۔ یوں تو مجھے کسی لڑکی سے کیا غرض؟ کہیں جائے۔ مگر یہ توآزمایا گیا کہ جن کو میں خویش سمجھتا اور جن کی لڑکی کے لئے چاہتا تھا کہ اس کی اولاد ہو اور وہ میری وارث ہو۔ وہی میرے خون کے پیاسے، وہی میرے عزت کے پیاسے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ خوار ہو اور اس کا روسیاہ ہو۔ خدا بے نیاز ہے۔ جس کو چاہے روسیاہ کرے۔ مگر اب تو وہ مجھے آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۵)
آپ نے مرزااحمد بیگ کے نام ایک خط میں یہ بھی لکھا کہ: ’’آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ یہ پیش گوئی اس عاجز کی ہزارہا لوگوں میں مشہور ہوچکی اور میرے خیال میں شاید دس لاکھ سے زیادہ آدمی ہوگا جو اس پیش گوئی پر اطلاع رکھتا ہے۔‘‘
اسی خط میں لکھتے ہیں: ’’میں نے لاہور میں جاکر معلوم کیا کہ ہزاروں مسلمان مساجد میں نماز کے بعد اس پیش گوئی کے لئے بصدق دل دعا کرتے ہیں۔‘‘ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۴)
مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ ان کی بہو عزت بی بی فضل احمد مرحوم کی اہلیہ اور اس کی والدہ اہلیہ مرزاشیر علی بیگ جو لڑکی کی پھوپھی تھیں۔ مرزاقادیانی کے نکاح کی مخالف اور مرزاسلطان محمد سے محمدی بیگم کے نکاح کے لئے ساعی اور مؤید ہیں۔ مرزاقادیانی نے اپنے سمدھی مرزا علی شیر بیگ کو لکھا: ’’میں نے ان کی خدمت میں (اہلیہ مرزاشیر علی بیگ کی خدمت میں) خط لکھ دیا ہے کہ اگر آپ اپنے ارادہ سے باز نہ آئیں اور اپنے بھائی (مرزااحمد بیگ) کو اس نکاح سے روک نہ دیں تو جیسا کہ آپ کی خود منشاء ہے۔ میرا بیٹا فضل احمد بھی آپ کی لڑکی (عزت بی بی) کو اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ ایک طرف جب (محمدی بیگم) کا کسی شخص سے نکاح ہوگا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لاوارث کر دوں گا اور اگر میرے لئے احمد بیگ سے مقابلہ کروگے اور یہ ارادہ اس کا بند کرادو گے تو میں بدل وجان حاضر ہوں اور فضل احمد کو جواب میرے قبضے میں سے ہر طرح سے درست کر کے آپ کی لڑکی کی آبادی کے لئے کوشش کروں گا اور میرا مال اس کا مال ہوگا۔‘‘ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۶)
مرزاقادیانی نے عزت بی بی سے اپنی والدہ کے نام خط لکھوایا۔ جس میں اس نے لکھا