دینے سے انکار کر دیا۔ مسئلہ ایسا مابہ النزاع اور سنجیدہ بن گیا تھا کہ مرزاقادیانی کے لئے اس رشتہ کا ہو جانا ضروری تھا اور وہ اتنے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کی پیش گوئی اور یقین دہانی کر چکے تھے کہ ان کے لئے نہ اس سے دستبردار ہونا ممکن تھا نہ اس کی تاویل۔ خود مرزاقادیانی اصولاً اس کے قائل تھے کہ ملہم کو پیش گوئی کی تکمیل کے لئے خود بھی جدوجہد اور تدبیر کرنی چاہئے اور یہ اس کے منصب ومقام کے منافی نہیں۱؎۔ اسی بناء پر نزول مسیح کی پیش گوئی کے ایک جز ’’منارۂ شرقی‘‘ کی تعمیر کا انہوں نے اہتمام کیا تھا اور اپنی زندگی میں اس کا آغاز کردیا تھا۔ اسی اصول کی بناء پر انہوں نے محمدی بیگم کے ولی اس کے والد اور اس کے رشتہ داروں کو ہر طرح سے اس رشتہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس کے لئے ترغیب وترہیب کے تمام ذرائع اختیار کئے۔ ان کی درخواست اور ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں بھی دونوں پہلو (ترغیب وترہیب) موجود ہیں۔ وہ عقد ہو جانے کی حالت میں انعامات خداوندی کا وعدہ کرتے ہیں اور انکار کی حالت میں اس کے اجڑ جانے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے لڑکی کے والد مرزااحمد بیگ اور اس کے پھوپھا مرزاعلی شیر بیگ اور پھوپھی اور ان دوسرے اعزہ کو جو اس رشتہ کے بارے میں مؤثر ومفید ہوسکتے تھے۔ بڑی لجاجت اور خوشامد کے خط لکھے کہ وہ اپنے اثر ورسوخ سے کام لے کر یہ رشتہ اگر کرادیں۔ مرزااحمد بیگ کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر آپ نے میرا قول اور بیان مان لیا تو مجھ پر مہربانی اور احسان اور میرے ساتھ نیکی ہوگی۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اور آپ کی درازیٔ عمر کے لئے ارحم الراحمین کے جناب میں دعا کروں گا اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو اپنی زمین اور مملوکات کا ایک تہائی حصہ دوں گا اور میں سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو کچھ مانگیں گے میں آپ کو دوں گا۔‘‘
دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’میں اب بھی عاجزی اور ادب سے آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ اس رشتہ سے آپ انحراف نہ فرمائیں کہ یہ آپ کی لڑکی کے لئے نہایت درجہ موجب برکت ہوگا اور خداتعالیٰ ان برکتوں کا دروازہ کھولے گا جو آپ کے خیال میں نہیں۔‘‘
(کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۴)
۱؎ وہ حقیقت الوحی ص۱۹۱، خزائن ج۲۲ص۱۹۸ میں لکھتے ہیں: ’’اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیش گوئی ظاہر فرمادے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیش گوئی کو پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے۔‘‘