مرزاقادیانی کو شدت علالت اور قرب وفات کے خطرہ سے جب کبھی اس پیش گوئی کے بارے میں تردد ہوا۔ جدید الہام کے ذریعے سے ان کو اس کا اطمینان دلایا گیا۔
ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں: ’’جب یہ پیش گوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ (جیسا کہ اب تک یعنی جو۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ء ہے۔ پوری نہیں ہوئی) تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا یہ پیش گوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور اب جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیش گوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا: ’’الحق من ربک فلا تکونن من الممترین‘‘ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۵،۳۰۶)
غرض محمدی بیگم سے نکاح مرزاقادیانی کے نزدیک ایک طے شدہ امر تھا۔ جس کا فیصلہ آسمان پر ہوچکا تھا اور جس میں تغیر وتخلف کا کوئی امکان نہ تھا۔ انہوں نے اس کو نہ صرف اپنے صدق وکذب بلکہ اپنے خبر دینے والے کے صدق وکذب کا معیار بنادیا تھا اور چونکہ اپنے کو وہ اسلام کا صحیح نمائندہ اور وکیل اور اپنی عزت کو اسلام کی عزت سمجھتے تھے۔ اس موقع پر اسلام کی فتح وشکست کا سوال کھڑا کر دیا تھا۔
مرزااحمد بیگ کا انکار اور مرزاقادیانی کا اصرار
مرزااحمد بیگ نے مرزاغلام احمد قادیانی کا پیام نامنظور کیا اور اپنے ایک عزیز مرزاسلطان محمد سے اپنی لڑکی کا عقد کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ مرزاقادیانی کو اس کا علم ہوا۔ مسئلہ (خود مرزاقادیانی کے جوش اور خود اعتمادی کی وجہ سے) خاندانی حدود سے نکل کر پبلک میں آچکا تھا اور اخباروں اور رسالوں کا عنوان اور مجلسوں کا موضوع سخن بنا ہوا تھا۔ ہندو، مسلمان اور سکھوں کو اس مسئلہ سے ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی جو اپنی خصوصیات اور امتیازی شان کی وجہ سے بالعموم شاہی خاندان اور مشاہیر کی شادیوں اور رشتہ داریوں سے بھی نہیں ہوتی۔ مرزاقادیانی نے اپنے باربار کے اشتہارات اور تحدی سے خود اس مسئلہ کو پیچیدہ اور نازک بنادیا تھا۔ لڑکی کے خاندان کے لوگوں نے (جو مرزاقادیانی سے دینی اختلاف بھی رکھتے تھے اور جن کی خودداری اور شرافت کو مرزاقادیانی کے اعلانات اور تشہیر سے ٹھیس لگی تھی) لڑکی کو مرزاقادیانی کے حبالۂ عقد میں دینے