مرزاقادیانی کی اس درجہ اس پیش گوئی کی تکمیل پر یقین تھا کہ وہ باربار اس کا اعادہ کرتے رہتے تھے اور زیادہ سے زیادہ مؤکد الفاظ میں اس کا اعلان فرماتے تھے۔ وہ آسمانی فیصلہ میں فرماتے ہیں: ’’اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء کی پیش گوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے: ’’ویسئلونک احق ھو قل ای وربی انہ لحق وما انت بمعجزین زوجناکہا لا مبدل لکلماتی وان یروا آیۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر‘‘ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۴۰، خزائن ج۴ ص۳۵۰)
اپنے اس عربی خط میں جو علماء ومشائخ ہندوستان کے نام تحریر کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’والقدر قدر مبرم من عند الرب العظیم وسیاتی وقتہ بفضل اﷲ الکریم فوالذی بعث لنا محمد المصطفیٰ وجعلہ خیر الرسل وخیر الوریٰ ان ہذا حق فسوف تری وانی اجعل ہذا النباء معیار لصدقی وکذبی وما قلت الا بعد ما انبٔت من ربی‘‘ تقدیر مبرم ہے۔ جس کا خدا کی طرف سے آخری فیصلہ ہوچکا ہے اور اس کا وقت بفضل خدا آکر رہے گا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپؐ کو تمام انبیاء اور تمام مخلوقات میں افضل بنایا۔ یہ ایک امر حق ہے تم کو خود نظر آجائے گا اور میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کا معیار ٹھہراتا ہوں اور میں نے اس وقت تک یہ بات نہیں کہی۔ جب تک مجھے اپنے رب کی طرف سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ ‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
ازالہ اوہام میں اس پیش گوئی کی عظمت اور اس کے نشان آسمانی ہونے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس (پیش گوئی) کی نسبت آریوں کے بعض منصف مزاج لوگوں نے بھی شہادت دی ہے کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے تو بلاشبہ خدا کا فعل ہے اور یہ پیش گوئی ایک سخت قوم کے مقابلہ پر ہے۔ جنہوں نے گویا دشمنی اور عناد کی تلواریں کھینچی ہوئی ہیں اور ہر ایک کو جس کو ان کے حال کی خبر ہوگی۔ وہ اس پیش گوئی کی عظمت خوب سمجھتا ہوگا۔ جو شخص اشتہار کو پڑھے گا وہ گو کیسا ہی متعصب ہوگا۔ اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ مضمون اس پیش گوئی کا انسان کی قدرت سے بالاتر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۹۷، خزائن ج۳ ص۳۰۵)