گئی تھی۔ اس شبہ کا کوئی خوار نہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’جن پیش گوئیوں کو مخالف کے سامنے دعوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایک خاص طور کی روشنی اور ہدایت اپنے اندررکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طور پر توجہ کر کے ان کا زیادہ تر انکشاف کرالیتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۳۰۹)
ممکن ہے لوگ اس پیش گوئی کو زیادہ اہمیت نہ دیتے۔ مرزاقادیانی کی زندگی میں ان پیش گوئیوں میں کوئی بات نہ تھی۔ ان کی تصنیفات، اشتہارات اور ان کی دعوتی زندگی ان پیش گوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن اس پیش گوئی میں ایک خاص انفرادیت اور تشخص ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کو ایک نشان آسمانی اور فیصلہ آسمانی کے طور پر پیش کیا اور اس کو نہ صرف اپنے صدق وکذب بلکہ اسلام کی شکست وفتح کا معیار بنادیا۔ وہ ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء کے مذکورہ بالا اشتہار میں لکھتے ہیں: ’’پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے باربار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ (مرزااحمد بیگ) کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی۔ ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بنادے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا۔‘‘
چنانچہ عربی الہام میں اس بارے میں یہ ہے: ’’کذبوا باٰیٰتنا وکانوا بہا یستہزؤن فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمت اﷲ۰ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک۰ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘ یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا۔ جس میں تیری تعریف کی جائے گی۔ یعنی گو دل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں۔ لیکن آخرکار خدائے تعالیٰ کی مدد دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۸۷، ۲۸۶، خزائن ج۵ ص۸۷، ۲۸۶)
اس کے بعد بھی امکان تھا کہ لوگ اپنی مشغولتیوں میں اس قصہ کو بھول جاتے لیکن