نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط کے ساتھ کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار مورخہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶، خزائن ج۵ ص۲۸۶)
ازالہ اوہام میں اس پیش گوئی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں: ’’خدائے تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزااحمد بیگ ولد مرزاگاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن آخر کار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵)
پیش گوئی کی اہمیت اور اس کی قطعیت
یہ مسئلہ اگرچہ ایک خانگی مسئلہ تھا اور کسی مؤرخ یا ناقد کو ایسے خانگی وذاتی مسائل سے کوئی بحث نہیں ہونی چاہئے۔ دنیا میں لوگ شادی کے پیام دیتے ہیں۔ کبھی منظورہوتے ہیں۔ کبھی منظور نہیں ہوتے۔ لیکن اس پیام اور اس واقعہ کو ایک خاص اہمیت اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کو اپنے صدق وکذب کا معیار اور اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ اسی اشتہار میں اپنی اس پیش گوئی کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’یہ خیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
یہ بھی خیال ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات غیبی اطلاع کے سمجھنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے اور ملہم الفاظ کے اشتراک کی وجہ سے اس کا کوئی غلط مصداق ٹھہرا لیتا ہے۔ لیکن خود مرزاقادیانی کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پیش گوئی میں جو بڑی تحدی اور چیلنج کے ساتھ مخالفوں کے سامنے پیش کی