کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ جمہور نے ان کی اس حرکت سے مشتعل ہوکر ان کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم ثابت ہوکر عوام کے ہاتھوں پنجشنبہ ۱۱؍رجب کو عدم آباد پہنچائے گئے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیرملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے۔ جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۲۵ئ)
مرزابشیرالدین محمد نے اپنے اس سپاسنامہ میں جو ۱۹؍جنوری ۱۹۲۲ء کو پرنس آف ویلز کو پیش کیا تھا۔ ان واقعات کا ذکر کیا اور ظاہر کیا کہ یہ سب قربانیاں انگریزی حکومت کے ساتھ اخلاص ووفاداری کا نتیجہ ہیں۔
بجرم عشق توام می کشند غوغائیست
تو نیز برسر بام آکہ خوش تماشائیست
اندازہ کی غلطی
مرزاقادیانی حکومت برطانیہ کا اقبال اور اس کی وسعت واستحکام دیکھ کر یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ ان کے نزدیک اس سے وفاداری کا اظہار اور اس کی قسمت سے اپنی قسمت وابستہ کر دینا ایک بڑی سیاسی دوربینی اور اعلیٰ درجہ کے تدبر کی بات تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دینی فراست اور سیاسی بصیرت دونوں سے محروم ہو۔ اس کا یہی فیصلہ اور اندازہ ہوگا۔ ان کے علم وادراک پر یہ بات بالکل مخفی رہی کہ ان کے انتقال پر نصف صدی نہ گزرنے پائے گی کہ یہ غیرمتزلزل انگریزی حکومت جس کو وہ ’’سایۂ اٰلہ‘‘ اور ’’دولت دین پناہ‘‘ سمجھتے تھے۔ ہندوستان سے اس طرح کوچ کر جائے گی کہ جیسے کبھی یہاں اس کا وجود نہ تھا اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ساری دنیا میں اس کا ستارۂ اقبال غروب ہو جائے گا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اس غیراسلامی اور مخالف اسلام حکومت سے جس طرح اپنی نیاز مندی کا اظہار کیا ہے اور جس جوش کے ساتھ مسلمانوں کو محکومی اور غلامی کی زندگی کو نعمت سمجھنے کی تلقین کی ہے۔ اس کو اس منصب ومقام سے کچھ مناسبت نہیں۔ جس کے وہ مدعی ہیں۔
اقبال مرحوم نے اسی بوالعجبی اور تضاد کی طرف اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے ؎
شیخ اولرد فرنگی رامرید
گرچہ گوید ازمقام بایزید