انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۵۹، خزائن ج۱۵ ص۴۸۷)
انگریزی حکومت کے رضاکار اور جاسوس
ان تعلیمات اور اس عقیدہ اور تبلیغ کا نتیجہ یہ تھا کہ انگریزی حکومت کی وفاداری اور اخلاص اور اس کی خدمت کا جذبہ قادیانی جماعت کے ذہن اور اس کی سیرت واخلاق کا ایک جزو بن گیا اور انگریزی حکومت کو اس جماعت میں سے ایسے مخلص خادم اور ایسے مستعد رضاکار ہاتھ آئے۔ جنہوں نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر حکومت کی گرانقدر خدمات انجام دیں اور اس کی خاطر اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ افغانستان میں عبداللطیف قادیانیت کا ایک پرجوش داعی تھا جو جہاد کی برملا تردید کرتا تھا۔ وہ افغان قوم کے اس جذبۂ جہاد کو فنا کرنے کے درپے تھا۔ جس نے کبھی اس ملک میں کسی غیرمسلم فاتح یا حکمران کے قدم جمنے نہیں دئیے اور جو انگریزی حکومت کو ہمیشہ پریشان کرتا رہا ہے۔ اسی بناء پر حکومت افغانستان نے اس کو قتل کر دیا۔
مرزابشیرالدین محمود نے خود اس کا اطالوی مصنف کی کتاب کے حوالے سے ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں: ’’وہ اطالوی مصنف لکھتا ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف کو اس وجہ سے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اس سے افغانوں کا جذبۂ حریت کمزور پڑ جائے گا اور اس پر انگریزوں کا اقتدار چھا جائے گا۔‘‘
اسی خطبہ میں وہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر ہمارے آدمی افغانستان میں خاموش رہتے اور وہ جہاد کے باب میں جماعت احمدیہ کے مسلک کو بیان نہ کرتے تو شرعی طور پر ان پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر وہ اس بڑھے ہوئے جوش کا شکار ہوگئے۔ جو انہیں حکومت برطانیہ کے متعلق تھا اور وہ اسی ہمدردی کی وجہ سے مستحق سزا ہوگئے۔ جوقادیان سے لے کر گئے تھے۔‘‘
اسی طرح ملا عبدالحکیم وملا نور علی قادیانی کے پاس سے ایسی دستاویزیں اور خطوط برآمد ہوئے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ افغانی حکومت کے غدار اور انگریزی حکومت کے ایجنٹ اور جاسوس ہیں۔
اخبار ’’الفضل‘‘ نے افغانی اخبار ’’امان افغان‘‘ کے حوالہ سے اس اطلاع کو شائع کیا۔ وہ لکھتا ہے: ’’افغان گورنمنٹ کے وزیرداخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا ہے۔ کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحکیم چہار آسیائی اور ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں