میں پیش کی تھی۔ یہاں تک لکھا ہے: ’’یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربے سے ایک وفادار جان نثار خاندان ثابت کر چکی اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے خیرخواہ اور خدمت گزار ہے۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم واحتیاط اور تحقیق وتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کے ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
کسی درخواست میں اپنی اور اپنی جماعت کے لئے سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ کے الفاظ آئے ہیں۔
پادریوں کے مناظرے میں جوش اور تیزی کی وجہ
مرزاقادیانی کو انگریزی حکومت کے ساتھ ایسا اخلاص اور اس کی خیرخواہی کا ایسا جذبہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے جوش نفرت کو کم کرنے کے لئے مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ انہوں نے عیسائی مناظرین اور پادریوں کے مقابلے میں جس جوش اور سرگرمی کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ان عیسائی پادریوں نے اسلام کی تردید اور پیغمبر اسلام کی توہین میں ایسا رویہ اختیار کیا تھا۔ جس سے مسلمانوں میں جوش اور اشتعال پیدا ہو جانے اور حکومت وقت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس لئے میں نے بھی مصلحتاً وقصداً ان کی تردید میں جوش وتاثیر کا اظہار کیا۔ تاکہ مسلمانوں کا جوش طبیعت فرو ہو جائے اور ان کو تسکین ہو۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشزیوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے… تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاسریع الغضب