جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۵،۲۸۴)
جہاد کے اس موقوف ہونے کو وہ اپنی ’’بعثت‘‘ کا مقصد اعظم قرار دیتے ہیں۔ تریاق القلوب کے ضمیمہ ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘میں لکھتے ہیں: ’’غرض میں اس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ وجدل کا میدان گرم کروں۔ بلکہ اس لئے ظاہر ہوا ہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح وآتشی کے دروازے کھول دوں اگر صلح کاری کی بنیاد درمیان نہ ہو تو پھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فضول۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ ص۵۲۱)
ایک جگہ اور بھی صفائی اور اختصار کے ساتھ لکھا ہے: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۹)انگریزی حکومت کا قلعہ اور تعویذ
مرزاقادیانی نے اپنے عربی رسالہ ’’نورالحق‘‘ میں پوری صفائی اور وضاحت کے ساتھ یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ان کا وجود انگریزی حکومت کے لئے ایک قلعہ اور حصار اور تعویذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی خدمات گناتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فلی ان ادعی التفرد فی ہذہ الخدمات ولی ان اقول اننی وحید فی ہذہ التائیدات ولی ان اقول انی حرزلہا وحصن حافظ من الاٰفات وبشرنی ربی وقال ماکان اﷲ لیعذبہم وانت فیہم فلیس للدولۃ نظیری ومثیلی فی نصری وعونی وستعلم الدولۃ ان کانت من المتوسمین‘‘ مجھے حق ہے کہ میں دعویٰ کروں کہ میں ان خدمات میں منفرد ہوں اور مجھے حق ہے کہ میں تائیدات میں یکتا ہوں اور مجھے حق ہے کہ میں یہ کہوں کہ میں اس حکومت کے لئے تعویذ اور ایسا قلعہ ہوں جو اس کو آفات ومصائب سے محفوظ رکھنے والا ہے اور میرے رب نے مجھے بشارت دی اور فرمایا کہ اﷲ ان کو عذاب نہیں دے گا۔ جب تک تم ان میں ہو پس حقیقتاً اس حکومت کے پاس میرا کوئی ہمسر اور نصرت وتائید میں میرا کوئی مثیل نہیں۔ اگر خدا نے اس حکومت کو نگاہ اور مردم شناسی عطاء کی ہے تو وہ اس کی تصدیق کرے گی۔ ‘‘
(نور الحق ص۳۲،۳۳، خزائن ج۸ ص۲۵)
خودکاشتہ پودا
مرزاقادیانی نے اس درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء