خود اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا: ’’ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار وما لکم من دون اﷲ من اولیاء ثم لا تنصرون (ہود:۱۱۳)‘‘ {اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں۔ پھر تم کو لگے گی آگ اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔}
رسول اﷲﷺ کی حدیث ہے: ’’افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ {جہاد کی اعلیٰ ترین قسم ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔}
رسول اﷲﷺ اور صحابۂ کرامؓ، ان کے سچے جانشینوں نے کسی جابر حکومت اور کسی باطل طاقت کے ساتھ کبھی تعاون نہیں کیا اور ان کی زبان کبھی اس کی تعریف وتائید سے ملوث نہیں ہوئی۔ اسلام کی تاریخ دعوت وعزیمت سلاطین وقت کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے واقعات اور ظالموں کے مقابلے میں علم جہاد بلند کرنے کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ اس افضل جہاد سے تاریخ اسلام کا کوئی مختصر سے مختصر عہد اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا گوشہ بھی خالی نہیں ہے۔
انگریزی حکومت کی تائید وحمایت اور جہاد کی حرمت
لیکن قرآن مجید کی ان روشن تعلیمات اور روح اسلام کے بالکل برخلاف اور انبیاء ومرسلین، صحابہ وتابعین اور ان کے متبعین کے اسوۂ حسنہ کے برعکس مرزاغلام احمد قادیانی جن کو مامور من اﷲ اور مرسل من عند اﷲ ہونے کا دعویٰ ہے۔ اپنے عہد کے طاغوت اکبر انگریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ اسی حکومت کی تائید وحمایت میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ جو اسلامی مملکت کی غاصب اور اسلامی اقتدار کی سب سے بڑی حریف اور اپنے زمانہ میں فساد والحاد کی سب سے بڑی علمبردار تھی۔ وہ ایسے کھلے لفظوں میں اس حکومت کی مدح وثناء کرتے ہیں۔ جس کے لئے ایک صاحب ضمیر انسان تیار نہیں ہوسکتا۔ ان کو شروع سے اس مسئلے کا اتنا اہتمام تھا کہ ان کی کوئی تصنیف مشکل سے اس سے خالی نظر آتی ہے۔ انہوں نے پہلی اور سب سے اہم تصنیف، براہین احمدیہ کے حصہ اوّل میں جس طرح اس حکومت کی تعریف وتوصیف کی ہے اور اس کے احسانات وخدمات گنائے ہیں اور جس طرح اسلامی انجمنوں کو مسلمانوں کی طرف سے وفاداری کا محضر پیش کرنے اور جہاد کو منسوخ وممنوع قرار دینے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ پچھلے صفحات میں گذر چکا ہے۔ یہ سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ اس موضوع پر انہوں نے ایک وسیع کتب خانہ تیار کر دیا۔ جس میں انہوں نے باربار اپنی وفاداری اور اخلاص اور اپنی خاندانی خدمات اور انگریزی حکومت کی تائید وحمایت اور اپنی سرگرمی اور انہماک کا ذکر کیا ہے اور ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں میں دینی