وہ ایک شکست خوردہ قوم کے ذلیل افراد بن کر رہ گئے اور اس ملک میں قرآن کی اس ابدی حقیقت کی تفسیر وتصویر نظر آئی۔
’’ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا وجعلوا اعزۃ اہلہا اذلۃ (النمل:۳۴)‘‘ {بے شک بادشاہ وفاتح جب کسی بستی میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز ترین شہریوں کو ذلیل وخوار کر دیتے ہیں۔}
انگریز اس ملک میں محض ناخداترس فرمانروا اور جابر حاکم نہ تھے۔ بلکہ وہ ایک ایسی تہذیب کے علمبردار تھے جو اس ملک میں فساد والحاد اور اخلاقی انتشار کا سرچشمہ تھی۔ وہ عملاً ان تمام اقتدار حیات کے منکر اور ان اخلاقی ودینی معیاروں سے منحرف تھے۔ جن پر اسلام کے اخلاقی واجتماعی نظام کی بنیاد ہے۔ وہ ایک جرائم پیشہ قوم تھے۔ جس کی تاریخ عالم اسلام پر مظالم اور سیاسی جرائم سے داغ داغ ہے۔
انبیاء علیہم السلام اور ان کے جانشینوں کا طرز عمل انبیاء علیہم السلام اور ان کے جانشینوں اور پیروؤں کی جو کچھ تاریخ اور سیرت دنیا میں محفوظ ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ظالموں اور مجرموں کے حریف اور مدمقابل رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہر ایسی بات سے احتراز کیا ہے۔ جس سے ان کی تائید وامداد ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مقولہ قران مجید میں منقول ہے: ’’رب بما انعمت علیّ فلن اکون ظہیراً للمجرمین (قصص:۱۷)‘‘ {اے رب جیسا تو نے مجھ پر فضل کیا۔ پھر میں کبھی گنہگاروں اور مجرموں کا مددگار نہ ہوںگا۔}
کفر وظلم اور اس کے علمبرداروں کے خلاف ان کے دل میں جو جذبہ اور غصہ تھا۔ اس کا اظہار ان کی مشہور دعا سے ہوتا ہے جو انہوں نے فرعون وقت اور اس کے ارکان سلطنت کے خلاف کی تھی۔
’’ربنا انک اٰتیت فرعون وملائہ زینۃ واموالا فی الحیوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک ربنا اطمس علیٰ اموالہم واشدد علیٰ قلوبہم فلا یؤمنوا حتی یرووا العذاب الالیم (یونس:۸۸)‘‘ {اے رب ہمارے تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں رونق اور مال دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ تیرے راستے سے بہکائیں گے۔ اے رب ان کی دولت پر جھاڑو پھیردے اور ان کے دل کو سخت کر دے کہ جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ ایمان نہ لائیں۔}