جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تونہیں ہوسکتا۔ لیکن بشریت ہے کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۱؎۔ ‘‘
آمدنی کے نئے نئے ذرائع
مرزاقادیانی ہی کی زندگی میں قادیان کے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں جگہ پانے کے لئے جو شرائط وضع کی گئیں اور ایک قبر کی جگہ کے لئے جو گراں قدر قیمت اور نذرانہ رکھاگیا اور اس کا جس ترغیب وتشویق کے ساتھ اعلان کیاگیا۔ (الوصیت ص۱۵،۱۹، خزائن ج۲۰ ص۳۱۶،۳۲۱)
اس نے قرون وسطیٰ کے ارباب کلیسا کے پروانۂ غفران کے بیع وشراء اور جنت کی قبالہ فروشی کی یاد تازہ کر دی اور مرکز قادیان کے لئے آمدنی کا ایک وسیع ومستقل سلسلہ شروع ہوگیا اور وہ رفتہ رفتہ سلسلۂ قادیانیت کا ایک عظیم محکمہ بن گیا۔ قادیان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے اپنی ایک اشاعت میں صحیح لکھا ہے کہ: ’’مقبرۂ بہشتی اس سلسلہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے اور ایسا عظیم الشان انسٹیٹیوشن یعنی محکمہ ہے۔ جس کی اہمیت ہر دوسرے محکمہ سے بڑھ کر ہے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۲۴، نمبر۶۵، مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست
اس سارے آغاز کا انجام یہ ہوا کہ تحریک قادیانیت کا مرکز قادیان اور تقسیم ہند کے بعد سے اس کا جانشین ربوہ(موجودہ چناب نگر) ایک اہم دینی ریاست بن گیا۔ جس میں قادیان کے ’’خاندان نبوت‘‘ اور اس کے صدر نشین مرزابشیرالدین محمود کو امارت وریاست کے وہ سب لوازم، ایک مذہبی آمر اور مطلق العنان فرماںروا کے سب اختیارات اور خوش باشی وعیش کوشی کے وہ سب مواقع مہیا ہیں۔ جو اس زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے انسان کو مہیا ہوسکتے ہیں۔ اس دینی وروحانی مرکز کی اندرونی زندگی اور اس کے امیر کی اخلاقی حالت حسن بن صباح باطنی کے قلعۂ الموت کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں مذہبی استبداد اور عیش وعشرت کا ایک پراسرار مرکز تھا۔ (ملاحظہ ہو راحت ملک صاحب کی کتاب ’’دور حاضر کا مذہبی آمر‘‘)
۱؎ مرزابشیرالدین محمود کا خط بنام مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اوّل مندرجہ حقیقت الاختلاف مصنفہ مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور ص۵۰، ہم نے مالی اعتراضات کے سلسلہ میں صرف مخصوص ومعتمد اہل تعلق کے بیانات پر اکتفا کیا ہے۔ ورنہ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کی کتاب الذکر الحکیم وغیرہ میں اس سلسلہ کا بہت مواد موجود ہے۔