کے لئے روپیہ دیتے ہیں۔ وہ روپیہ ان اغراض میں صرف نہیں ہوتا۔ بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر وہ روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے اور ناقص حالت میں پرے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو اکیلے اسی سے وہ سارے کام پورے ہوسکتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵،۱۶)
یہ اعتراضات مرزاقادیانی کے کان تک بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر بڑی ناگواری وناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی سرور شاہ صاحب لکھتے ہیں:
مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ خواجہ وغیرہ ایسے ہیں کہ باربار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔
(کشف الاختلاف ص۱۴)
خود مرزاقادیانی نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے اس مالی الزام کا تذکرہ اور اس پر اپنے رنج وملال کا اظہار کیا۔ مرزابشیرالدین مولوی حکیم نورالدین کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اس دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا۔ کہا کہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔‘‘ ’’پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو، جس کا جواب