روپیہ پر رات گزارنے کو گناہ سمجھتے تھے اور جو کچھ ان کے پاس آتا تھا وہ فقراء اور اہل حاجت میں تقسیم کر دیتے تھے۔ جن کا حال یہ تھا کہ جس قدر آسودگی کے اسباب زیادہ ہوتے تھے اور جس قدر لوگوں کا رجوع ان کی طرف بڑھتا تھا۔ جس قدر تحائف وہدایا کی بارش ہوتی تھی۔ اسی قدر ان کا استغناء اور زہد ترقی کرتا تھا۔ مرزاقادیانی ہی کے زمانہ میں مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا سید عبداﷲ غزنویؒ، مولانا محمد نعیم فرنگی محلیؒ جیسے حضرات موجود تھے۔ جنہوں نے فقر محمدی کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
صدق نبوت کی ایک دلیل ایسی زاہدانہ زندگی جس میں اوّل سے آخر تک کوئی تفاوت نہ ہو۔ غربت وامارت کے زمانہ میں یکساں طرز عمل اور دولت دنیا سے بے تعلقی وبے اثری خود مرزاقادیانی کے نزدیک نبوت محمدی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی۔ کوئی یادگار تیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبرگیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر کھانا نہ کھایا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۱۷،خزائن ج۱ص۱۰۹)
دین کا داعی یا سیاسی قائد؟
اب ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر جو خود مرزاقادیانی نے ہم کو دیا ہے اور جو مزاج نبوت کے عین مطابق ہے۔ ہم خود مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم کو اس مطالعہ میں نظر آتا ہے کہ جب ان کی تحریک پھیل گئی اور وہ ایک بڑے فرقہ کے روحانی پیشوا اور اس کی عقیدتوں اور فیاضانہ اولوالعزمیوں کا مرکز بن گئے تو ان کی ابتدائی اور اس آخری زندگی میں بڑا فرق نمایاں ہوا۔ ہمیں اس موقع پر ان کے حالات دین کے داعیوں اور مبلغوں اور درسگاہ نبوت کے فیض یافتہ نفوس قدسیہ سے الگ سیاسی قائدین اور غیردینی تحریکوں کے بانیوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز ان کے مخلص ومقرب ساتھیوں کے لئے بھی اضطراب کا باعث ہوئی اور دل کی بات زبانوں پر آنے لگی۔
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی جس ترفہ اور جیسے تجمل اور تنعم کی تھی۔ وہ راسخ الاعتقاد